انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان کی بحرانی کیفیت میں بچے شدید متاثر: یونیسف

قندھار میں یونیسف کے ایک موبائل ہیلتھ سنٹر کے باہر بچے اور خواتین اپنی باری کے منتظر ہیں۔
© UNICEF/Salam Al-Janabi
قندھار میں یونیسف کے ایک موبائل ہیلتھ سنٹر کے باہر بچے اور خواتین اپنی باری کے منتظر ہیں۔

افغانستان کی بحرانی کیفیت میں بچے شدید متاثر: یونیسف

انسانی امداد

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے نمائندے فران ایکویزا نے کہا ہے کہ ملک میں اندازاً 90 فیصد آبادی غربت کے دھانے پر ہے اور "اس کا خمیازہ بچے بھگت رہے ہیں۔"

نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتہائی مشکل حالات کا شکار یہ ملک "انسانی تباہی، موسمیاتی آفات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں سے نبرد آزما ہے اور بہت سے لوگ بھول گئے ہیں کہ افغانستان میں بچوں کے حقوق کا بحران ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔

Tweet URL

بچوں کی زندگیاں خطروں سے دوچار

اس سال قریباً 2.3 ملین افغان لڑکوں اور لڑکیوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں سے 875,000 بچوں کو سنگین نوعیت کی شدید غذائی قلت کا سامنا ہو گا جس سے متاثرہ فرد کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

مزید برآں، قریباً 840,000 حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے شدید غذائی قلت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جس سے ان کی اپنے بچوں کو نوعمری میں اچھی زندگی دینے کی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی۔

فران ایکویزا نے مزید کہا کہ "اگرچہ ملک میں لڑائی تقریباً تھم چکی ہے تاہم دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے حقوق انتہائی خوفناک انداز میں روزانہ پامال ہوتے رہے ہیں۔"

بڑھتا ہوا خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان دنیا میں "ہتھیاروں سے آلودہ" سب سے بڑا ملک ہے اور یہ ہتھیار سب سے زیادہ نقصان بچوں کو پہنچا رہے ہیں۔

انہوں نے ابتدائی معلومات کا حوالہ دیا جن کے مطابق اس سال جنوری اور مارچ کے درمیان دھماکہ خیز اسلحے سے 134 بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "یہ افغان بچوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرے کی حقیقت ہے جو ایسے علاقوں میں گھومتے پھرتے ہوئے اس گولہ بارود کا ہدف بن جاتے ہیں جو پہلے لڑائی کے باعث ناقابل رسائی تھے۔

ہلاک اور معذور ہونے والے بیشتر بچے ناکارہ دھاتی اشیا فروخت کرنے کے لئے جمع کر رہے تھے کیونکہ غربت میں انہیں یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ غربت کے عالم میں والدین بچوں کو نہ چاہتے ہوئے اور مجبوری میں کام پر بھیجتے ہیں۔"

چائلڈ لیبر

تقریباً 1.6 ملین افغان بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں جو روزی کمانے میں اپنے والدین کی مدد کے لئے خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ایسے بعض بچوں کی عمر چھ سال تک ہے۔

فران ایکویزا نے کہا کہ "جہاں تعلیم امید کی علامت ہوا کرتی تھی وہاں بچوں کے سیکھنے کے حقوق حملے کی زد میں ہیں۔

افغانستان بھر میں لڑکیاں تین سال سے تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ پہلے انہیں کووڈ۔19 وبا کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی اور ستمبر 2021 کے بعد وہ طالبان کی جانب سے پابندی کے باعث ثانوی درجے کے سکولوں میں جانے سے محروم ہو گئیں۔ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سکول نہ جانے سے ان کی ذہنی صحت پر کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔"

یونیسف کام جاری رکھے گا

انہوں نے افغانستان میں خواتین اور بچوں کی خاطر قیام کرنے اور ان کے کام آنے کے لئے یونیسف کے عزم کو واضح کیا۔ ادارہ ملک میں پچھلے 75 سال سے کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم خود کو تیزی سے تبدیل ہوتے حقائق سے ہم آہنگ کر رہے ہیں اور ایسے بچوں تک پہنچنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں جنہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ یونیسف کے ساتھ ملازمت کرنے والی افغان خواتین بچوں کے لئے ہمارے کام میں اپنا اہم کردار جاری رکھ سکیں۔"

روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر انہوں نے عالمی برادری سے بڑے پیمانے پر مدد دینے کے لئے کہا۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں بچوں کے لئے یونیسف کے امدادی اقدام کے لئے درکار مالی وسائل میں اب تک 22 فیصد ہی جمع ہو پائے ہیں۔