انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ڈبلیو ایم او کا گرین ہاؤس گیسوں پر نظر رکھنے کے منصوبے کا اعلان

کووڈ۔19 کی وجہ سے معیشت میں مندے کے رجحان کے باوجود فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھا ہے۔
Unsplash/Johannes Plenio
کووڈ۔19 کی وجہ سے معیشت میں مندے کے رجحان کے باوجود فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھا ہے۔

ڈبلیو ایم او کا گرین ہاؤس گیسوں پر نظر رکھنے کے منصوبے کا اعلان

موسم اور ماحول

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ زمین پر گرمی کو جمع رکھنے والی ماحولیاتی آلودگی کی پیمائش کے طریقے کو اساسی طور پر بہتر بنا کر موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے منصوبے پر حکومتیں اور عالمی سائنسی برادری سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے ایک  مجوزہ اقدام کے تحت زمین پر پیمائشی مراکز کا ایک جال قائم کیا جائے گا جو ممکنہ طور پر آئندہ پانچ سال میں فضا کے معیار سے متعلق پریشان کن اعدادوشمار کی تصدیق کر سکے گا جن کی نشاندہی مصنوعی سیارچوں یا ہوائی جہازوں کے ذریعے کی جاتی رہی ہے۔

Tweet URL

ڈبلیو ایم او نے کہا ہے کہ ''فی الوقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے زمینی اور فضائی مشاہدوں کا کوئی جامع اور بروقت بین الاقوامی تبادلہ نہیں ہوتا''۔ ادارے نے اس معاملے میں ''مزید بہتر (بین الاقوامی) تعاون'' اور معلومات کے تبادلے پر زور دیا ہے تاکہ 2015 کے پیرس معاہدے کے اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکے جو کاربن کے اخراج کو محدود کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مستحکم اقدامات کا لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ 

میتھین کا اسرار

ڈبلیو ایم او کی اعلیٰ سطحی سائنسی افسر ڈاکٹر اوکسانا تاراسووا نے کہا ہے کہ ''یہ محض انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہونے والا اخراج (جس کی نگرانی کی جائے گی) نہیں ہے بلکہ اس میں جنگلات اور سمندروں کا کردار بھی ہے۔ ہمیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے ان معلومات کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس کھونے کو وقت نہیں ہے۔''

ڈاکٹر تاراسووا نے مزید کہا کہ 2022 میں ڈبلیو ایم او نے میتھین کے اخراج سے متعلق اب تک کے سب سے بڑے مشاہدے کی اطلاع دی ''اور ہم اس اضافے کی وجوہات سے تاحال آگاہ نہیں ہیں لہٰذا اس نئے مجوزہ ڈھانچے کا ایک کام یہ ہو گا کہ اس سے مشاہدے اور اس کے نتائج سے کام لینے کے معاملے میں ان خامیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی جو ہمارے علم میں ہیں۔'' 

سمجھ بوجھ کا ماحول

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی نگرانی کے لیے مجوزہ عالمگیر منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور نجی شعبے کے مابین تعاون ضروری ہو گا۔

مزید برآں، زمین، فضا اور خلا سے کام کرنے والے مشاہداتی نظام کے درمیان مزید ارتباط بھی اتنا ہی اہم ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ ''مزید درست اور طویل مدتی معلومات کی بدولت ہم اپنے تبدیل ہوتے ماحول کے حوالے سے بہتر سمجھ بوجھ حاصل کریں گے۔ اس طرح ہم مزید آگاہی پر مبنی فیصلے کر سکیں گے اور یہ جان پائیں گے کہ آیا ہمارے اقدامات کے مطلوبہ نتائج حاصل ہو رہے ہیں یا نہیں۔''

ڈبلیو ایم او نے ماحولیاتی نگرانی کے ایک واحد اور بین الاقوامی طور پر مربوط ادارے کے قیام کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض حکومتیں اور عالمی ادارے پہلے ہی مخصوص ماحولیاتی نگرانی اور معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں تاہم ''اس حوالے سے رہنمائی کا کوئی مجموعی طریق کار موجود نہیں ہے اور تحقیقی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل پر غیرضروری انحصار کیا جاتا ہے۔''

بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے آلودگی میں کمی ہوگی جس سے فضاء میں مضر گیسوں کا اخراج بھی کم ہوگا۔
IMF/Crispin Rodwell
بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے آلودگی میں کمی ہوگی جس سے فضاء میں مضر گیسوں کا اخراج بھی کم ہوگا۔

سراغ لگانے کی دوڑ

زمینی فضا زیادہ تر نائٹروجن اور آکسیجن گیس پر مشتمل ہے لیکن اس میں تھوڑی سی مقدار میں پائی جانے والی مختلف دیگر گیسیں اور ذرات بھی شامل ہیں جن کے زندگی اور قدرتی ماحول پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

صنعتی ترقی کے بعد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے فضائی ترکیب کو غیرمعمولی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

ڈبلیو ایم او نے تواتر سے خبردار کیا ہے کہ خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھن جیسی گرین ہاؤس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقدار عالمی حدت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہے۔

موسمیاتی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ گیسیں اور آلودگی کا باعث بننے والے دیگر عناصر انسانوں، زراعت اور ماحولی نظام کے لیے فضائی معیار کو بھی متاثر کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم جس فضا میں سانس لیتے ہیں اس کے بارے میں درست معلومات کی موجودگی اس قدر اہم ہے۔

ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ ''آلودگی کی سطح اور فضائی معیار میں تنزل کے بارے میں درست اور قابل بھروسہ اعدادوشمار اور علم کی بدولت ہمیں ماحول، انسانی صحت، حیاتیاتی نقصان، ماحولی نظام اور پانی کے معیار پر ان کے اثرات کو بہتر طور سے سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور ہم ان اثرات کو محدود کرنے یا اس حوالے سے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے بارے میں بھی درست فیصلے کر سکتے ہیں۔''