انسانی کہانیاں عالمی تناظر

چالیس فیصد حیاتیاتی بوقلمونی کے حامل نمدار علاقوں کی بحالی پر توجہ دیں

عوامی جمہوریہ لاؤ میں کسان بارش کے پانی سے زیر آب آنے والی زمین پر دھان کی پنیری لگا رہے ہیں۔
© FAO/Xavier Bouan
عوامی جمہوریہ لاؤ میں کسان بارش کے پانی سے زیر آب آنے والی زمین پر دھان کی پنیری لگا رہے ہیں۔

چالیس فیصد حیاتیاتی بوقلمونی کے حامل نمدار علاقوں کی بحالی پر توجہ دیں

موسم اور ماحول

اگرچہ دلدلوں، ساحلی جنگلات اور نشیبی آبی علاقوں جیسے ساحلی اور تازہ پانی کے نمدار مقامات پودوں اور جانوروں کی 40 فیصد انواح کا مسکن ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلی اور انسانی ترقی نے ایسی بہت سی جگہوں کو آلودہ کر دیا ہے یا ان کا ماحول انحطاط پذیر ہے۔

اس جمعرات کو منائے جانے والے 'نمدار علاقوں کے عالمی دن' پر اقوام متحدہ ایسے ماحولی نظام کی تجدید اور بحالی کے لیے کہہ رہا ہے جو جنگلات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تیزی سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

Tweet URL

نمدار علاقے زمین کے غیرآبی حصے کا تقریباً چھ فیصد ہیں اور انسانی صحت، خوراک کی فراہمی، سیاحت اور نوکریوں کے لیے ان کی خاص اہمیت ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ

دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ لوگ اپنے روزگار کے لیے انہی علاقوں پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ان کا نشیبی پانی اور فراواں نباتات حشرات سے لے کر بطخوں اور شمالی امریکی بارہ سنگھے تک ہر جاندار کے کام آتے ہیں۔

نمدار زمین پائیدار ترقی کے حصول اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ایسے علاقے پانی کی فراہمی کو منظم کرنے جیسی ماحولی نظام کی ضروری خدمات بھی مہیا کرتے ہیں اور اس طرح سیلاب کے امکانات کو محدود رکھتے ہیں۔

ارضی نمدار ماحولی نظام، جو کہ نباتاتی نمدار زمین کی ایک مخصوص قسم ہے، جنگلات کے مقابلے میں دو گنا زیادہ کاربن جذب کرتا ہے۔

تیزتر نقصانات

تاہم، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 200 برس میں کھیتی باڑی یا بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے نمدار زمینوں سے پانی لیا جاتا رہا ہے۔

1970 اور 2015 کے درمیانی عرصہ میں دنیا بھر میں اندازاً 35 فیصد تمام نمدار علاقے ختم ہو گئے ہیں اور 2000 سے یہ نقصان تیزرفتار سے ہو رہا ہے۔

'یو این ای پی' نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب سطح سمندر میں اضافے کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو اس صدی کے آخر تک تقریباً 20 سے 90 فیصد ساحلی نمدار علاقے ختم ہو سکتے ہیں۔

نمدار زمینوں میں حیاتیاتی تنوع کا نقصان بھی دوسرے علاقوں اور سمندری ماحولی نظام کی نسبت زیادہ ہے۔

چین کی ویٹ لینڈز کا ایک فضائی منظر۔
UNDP China
چین کی ویٹ لینڈز کا ایک فضائی منظر۔

بحالی پر سرمایہ کاری

ادارے کی سمندری اور تازہ پانی سے متعلق شاخ کی سربراہ لیٹیسیا کارویلو نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں اور امدادی قیمتوں کا خاتمہ کریں جو جنگلات کاٹنے اور نمدار زمینوں کے انحطاط کا محرک بنتی ہیں اور ان جگہوں کی بحالی پر فوری توجہ دیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ''اس کے ساتھ ہمیں ارضی نمدار ماحول جیسے ترجیحی ضرورت کے حامل قدرتی نظام کو تحفظ دینے کی خاطر سرمایہ کاری کی رہنمائی کرنا ہو گی اور اس کا انتظام ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے ساتھ نجی شعبے کو ترغیب دینا ہو گی کہ وہ اشیا کی ترسیل کے ایسے نظام کا عہد کرے جس میں جنگلات کو تحفظ ملے اور ارضی نمدار ماحول سے پانی کا اخراج نہ ہو۔''

ماحولی تحفظ کا تاریخی معاہدہ

حال ہی میں حکومتیں نمدار علاقوں کو تحفظ دینے کی کوششوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں حیاتیاتی تنوع پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں ممالک نے 2023 تک کرہ ارض کے ایک تہائی خشک حصے، ساحلی خِطوں اور خشکی میں گھرے آبی علاقوں کو تحفظ دینے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق کیا۔

دنیا بھر میں نمدار علاقوں کی بحالی کے اقدامات میں تیزی آ رہی ہے۔ مثال کے طور پر چین شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی نقل مکانی اور سیلاب سمیت شدید موسمی آفات کے مقابل ''اسفنجی شہروں'' کے تصور کو ترقی دے رہا ہے۔

ان میں ''سبز'' چھتیں، تعمیر شدہ نمدار جگہیں اور گزرگاہیں بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں جو طوفانی بارشوں کے پانی کو جذب کرتے، اس کے بہاؤ کی رفتار میں کمی لاتے اور اس کی تقطیر میں مدد دیتے ہیں۔

سرخ تاج والی کونجیں موسم بہار اور گرما میں افزائش نسل کرتی ہیں اور ویٹ لینڈز میں اپنے گھونسلے بناتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی اعمال کی وجہ سے کم ہوتی ویٹ لینڈز سے ان کونجوں کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔
UNDP China/2018
سرخ تاج والی کونجیں موسم بہار اور گرما میں افزائش نسل کرتی ہیں اور ویٹ لینڈز میں اپنے گھونسلے بناتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی اعمال کی وجہ سے کم ہوتی ویٹ لینڈز سے ان کونجوں کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔

فطرت کے لیے سرمایہ کاری

گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں 'یو این ای پی' نے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور حیاتیاتی تنوع اور زمین کے انحطاط کو روکنے کے لیے فطری بنیاد پر استوار اقدامات میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

فی الوقت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر سال 154 بلین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں تاہم 2025 تک یہ رقم دو گنا سے زیادہ اضافے کے ساتھ 384 ارب ڈالر ہونی چاہیے۔

لیٹیسیا کارویلو نے کہا کہ ''نمدار زمینوں کی فراہم کردہ خدمات کے تحفظ کے لیے ہمارے پاس مواقع ختم ہو رہے ہیں جبکہ پائیدار مستقبل کے لیے معاشروں کا انہی جگہوں پر انحصار ہے۔

ہمیں مزید تاخیر کیے بغیر عالمی یکجہتی، صلاحیت سازی اور مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کرنا چاہیے۔''