انسانی کہانیاں عالمی تناظر
کاپ 27 میں ’انرجی اور سول سوسائٹی‘ کے دن مظاہرین نے افریقہ میں گیس اور تیل کی تلاش کے خلاف احتجاج کیا۔

کاپ 27: درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے کے ہدف پر زور

UN News/Laura Quiñones
کاپ 27 میں ’انرجی اور سول سوسائٹی‘ کے دن مظاہرین نے افریقہ میں گیس اور تیل کی تلاش کے خلاف احتجاج کیا۔

کاپ 27: درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے کے ہدف پر زور

موسم اور ماحول

اگرچہ سائنس ہمیں بتا رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے معدنی ایندھن پر انحصار ترک کرنا ہو گا لیکن اس کے باوجود تیل، گیس اور کوئلے کے منصوبوں میں پریشان کن توسیع دیکھنے میں آ رہی ہے۔

منگل کو کاپ 27 میں 'توانائی کے دن' یہی معاملہ موضوعِ بحث تھا۔ اس موقع پر بہت سے ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ معدنی ایندھن کا استعمال جاری رہنے سے عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے کے ہدف کا حصول خطرے میں ہے۔

دنیا بھر میں بیشتر توانائی معدنی ایندھن سے حاصل کی جا رہی ہے جو عالمی سطح پر ایک تہائی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔ اگرچہ بیشتر دنیا کو بجلی اور نقل و حمل کی سہولت معدنی ایندھن سے ہی حاصل ہوتی ہے تاہم اس سے موسمیاتی تبدیلی کے مقابل غیرمحفوظ لوگوں اور ماحولی نظام کو شدید تکلیف اور نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

انٹرنیشنل ری نیو ایبل ایجنسی (آئی آر ای این اے) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں صرف 29 فیصد توانائی ہی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے اور کاربن کا اخراج بدستور بڑھ رہا ہے۔

یو این کلائمنٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے سربراہ سائمن سٹیل گیسوں کے اخراج کے بارے میں رپورٹ کے اجراء کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں۔
UNIC Tokyo/Momoko Sato
یو این کلائمنٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے سربراہ سائمن سٹیل گیسوں کے اخراج کے بارے میں رپورٹ کے اجراء کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں۔

اِس سال اقوام متحدہ کے زیراہتمام مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری موسمیاتی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی سربراہ انگر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ''تاحال ہم نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ گلاسگو میں ہونے والی کاپ 26 کانفرنس کے بعد ایک سال میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات تاخیر کا شکار رہے۔ 2030 تک ہمیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 30 سے 45 فیصد تک کم کرنا ہو گا تاہم کاپ 26 کے بعد ہم اس میں صرف ایک فیصد تک ہی کمی لا سکے ہیں۔ اسی لیے ہمیں ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔''

انگراینڈرسن نے بتایا کہ اس وقت ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سیلسیئس تک گرم ہو چکی ہے اور ہم پہلے ہی طوفانوں، خشک سالی، سیلاب اور فصلوں کو ہونے والے نقصان کی صورت میں اس حدت کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔

1.5 ڈگری کا ہدف برقرار

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن سٹیئل نے بھی عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد تک رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہدف پیرس معاہدے میں طے پایا تھا لیکن اس کی بنیاد سائنس اور ٹھوس معلومات پر بھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ''عالمی حدت میں 1.5 ڈگری سے زیادہ اضافے سے صحت، روزگار، تحفظ خوراک، پانی کی فراہمی، انسانی سلامتی اور معاشی ترقی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے پہلے ہی بہت سے لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ 1.5 ڈگری کی حد سے اوپر معمولی سا اضافہ بھی کرہ ارض پر انسانی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ انہوں نے ممالک سے کہا کہ وہ 1.5 ڈگری کے ہدف کو دسترس میں رکھنے کے لیے گلاسگو موسمیاتی معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔''

سوموار کو شرم الشیخ میں سٹیئل نے ''تقسیم ختم کرنے'' کے اقدام کے فریقین سے کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے، ان سے مطابقت پیدا کرنے اور اس بحران میں نقصان اٹھانے والوں کو مالی وسائل مہیا کرنے اور اس معاملے میں احتساب کے لیے فوری اقدام یقینی بنائیں اور ممالک کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان امور پر پیش رفت کے لیے ''ٹھوس انداز'' اختیار کریں۔

موآرا لبو جیو تھرمل پاور پلانٹ انڈونیشیا کو قابل تجدید توانائی کے حصول اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دے رہا ہے۔
ADB/Gerhard Joren
موآرا لبو جیو تھرمل پاور پلانٹ انڈونیشیا کو قابل تجدید توانائی کے حصول اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دے رہا ہے۔

مثبت پیش رفت

موسمیاتی تبدیلی کے امور پر اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ جنوبی افریقہ نے کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے لیے کئی ملین ڈالر کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے جو کہ معدنی ایندھن پر انحصار ختم کرنے کی عالمی کوششوں میں ایک اہم اقدام ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''ہمیں توقع ہے کہ اس ہفتے بالی میں جی20 کے وزرا کے اجلاس میں اس حوالے سے مزید پرعزم اقدامات کے بارے میں سننے کو ملے گا۔ اسی لیے کاپ 27 میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں لیکن تیزرفتار پیش رفت کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہمیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے اس کانفرنس سے ہٹ کر بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔''

بالی میں جی20 کانفرنس کے موقع پر امریکہ اور جاپان کے زیرقیادت ممالک کے اتحاد نے اعلان کیا کہ وہ انڈونیشیا کا کوئلے پر انحصار تیزی سے ختم کرنے اور جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقل کرنے کے لیے 20 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کریں گے۔

فی الوقت انڈونیشیا کوئلے سے توانائی پیداکرنے والا دنیا کا سب سے بڑا اور گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔

ذرائع موجود، ان سے کام لینے کی ضرورت

سائنس دان اور موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے رکن جِم سکی کے مطابق دنیا نے قابل تجدید توانائی کے حوالے سے بڑی پیش رفت کا مشاہدہ کیا ہے اور گزشتہ برسوں میں اس توانائی کی قیمت میں کمی آئی ہے اور متبادل توانائی کے ذرائع کی تنصیب میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ ''موسمیاتی حوالے سے قانون سازی دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے نصف کا احاطہ کرتی ہے اور 'کاربن پرائسنگ' کی بدولت بیس فیصد اخراج میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو لوگوں نے تاحال تمام ذرائع کا استعمال نہیں کیا ان کے پاس اس معاملے میں عملی پیش رفت کا موقع اور ذرائع موجود ہیں۔ اگر لوگ خاطر خواہ عزم کا مظاہرہ کریں تو بہت بڑے کام ممکن ہیں۔''

انہوں نے واضح کیا کہ آئی پی سی سی کی رپورٹوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 1.5 ڈگری کے ہدف کو دسترس میں رکھنے کے لیے مختصر مدت میں کوئلے کے استعمال میں ''بہت بڑی'' تیل کے استعمال میں درمیانے درجے کی اور گیس کے استعمال میں قدرے کمی آنی چاہیے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ''ہمیں 2050 تک گیس کا استعمال 45 فیصد کم کرنا ہو گا۔ اس طرح ہر سال ہمیں اس میں 2 فیصد کی شرح سے کمی لانا ہو گی۔ اگر دیکھا جائے تو گیس کے موجودہ کنویں اس سے پہلے خالی ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو ہر طرح کے معدنی ایندھن کے استعمال سے ہاتھ کھینچنا ہو گا لیکن شاید یہ کام ہر جگہ ایک ہی رفتار سے نہیں ہو پائے گا۔