انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایڈز کے 2030 تک خاتمے کے لیے مطلوبہ طبی خدمات کی فراہمی ضروری

ایڈز کے خلاف عالمی اتحاد کے رکن ممالک میں باہمی تعاون اور مریضوں تک اس کی رسائی میں اضافے کی ضرورت ہے۔
Photo: UNAIDS
ایڈز کے خلاف عالمی اتحاد کے رکن ممالک میں باہمی تعاون اور مریضوں تک اس کی رسائی میں اضافے کی ضرورت ہے۔

ایڈز کے 2030 تک خاتمے کے لیے مطلوبہ طبی خدمات کی فراہمی ضروری

صحت

رواں دہائی کے اختتام تک ایڈز کا خاتمہ کرنے کے لیے ایسے ممالک میں ایچ آئی وی خدمات میں فوری اضافے کی ضرورت ہے جہاں اس بیماری کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہے۔

2030 تک بچوں میں ایڈز کے خاتمے کے لیے قائم کردہ عالمی اتحاد کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000 کے بعد 14 سال تک عمر کے 40 لاکھ بچوں کی زندگی کو ایڈز سے تحفظ مہیا کیا گیا ہے جو ایک نمایاں کامیابی ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی کی منتقلی روکنے پر توجہ مرکوز کی گئی جس کے نہایت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

Tweet URL

تاہم 'تصور کی حقیقت میں تبدیلی' کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کامیابی کافی نہیں اور بچوں کے لیے اس بیماری کا خطرہ دور کرنے کی غرض سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

عالمی اتحاد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ایچ آئی وی/ایڈز پر اقوام متحدہ کے مشترکہ پروگرام نے 2022 میں شروع کیا تھا اور اس میں براعظم افریقہ کے 12 ممالک شامل ہیں۔

مثبت پیش رفت

'یو این ایڈز' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کہا ہے کہ وہ نوجوان خواتین کو صحت مند رکھنے اور ہر عمر کے بچوں کو ایچ آئی وی سے تحفظ دینے کے لیے بہت سے ممالک میں اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتی ہیں۔ دور حاضر میں دستیاب ادویات اور سائنس کی بدولت تمام نومولود بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی کو یقینی طور پر روکا جا سکتا ہے اور جو بچے اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں ان کا علاج برقرار رکھنا بھی ممکن ہے۔ تاہم اس کے لیے تمام بچوں کی علاج تک رسائی یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اتحاد میں شامل بہت سے ممالک نے ایچ آئی وی سے متاثرہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو زندگی بھر کے لیے اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی کی فراہمی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ یوگنڈا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ایسی تمام خواتین کو یہ علاج میسر ہے۔

تشویشناک رحجانات

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہےکہ اگرچہ حاملہ خواتین کی ایچ آئی وی کی تشخیص اور علاج کی سہولیات تک رسائی اور اس بیماری کی ان کے بچوں کو منتقلی روکنے کے لیے نمایاں کام ہوا ہے تاہم بچوں میں اس بیماری کے علاج کے معاملے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ عالمی اتحاد کے رکن ممالک میں باہمی تعاون اور مریضوں تک اس کی رسائی میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس کام کو مصمم ارادے، توجہ اور تمام متاثرہ ماؤں، بچوں اور بالغوں کے ساتھ یکجہتی سے کرنا ہو گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے میں نمایاں کامیابیوں کے باوجود اتحاد میں شامل ممالک سمیت پوری دنیا بچوں اور بالغوں میں ایچ آئی وی کے خاتمے کے حوالے سے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتے۔ ایچ آئی وی کے نئے متاثرین اور ایڈز سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی کی صورتحال کو دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں بڑی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔

عمر اور صنفی نابرابری

رپورٹ کے مطابق 2023 میں 14 سال تک عمر کے ایک لاکھ 20 ہزار بچے ایچ آئی وی سے متاثر ہوئے اور ان میں 77 ہزار کا تعلق عالمی اتحاد میں شامل ممالک سے تھا۔ دنیا بھر میں گزشتہ سال ایڈز سے 76 ہزار اموات ہوئیں جن میں 49 ہزار ان ممالک سے تعلق رکھنے والے اسی عمر کے بچے تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں اور بڑوں کی ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی میں بڑے پیمانے پر فرق پایا جاتا ہے۔

یونیسف میں ایچ آئی وی/ایڈز سے متعلق شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر انوریتا بینز نے کہا ہے کہ بروقت اور موثر تشخیص اور علاج کے بغیر ایچ آئی اوی بچوں اور بالغوں کی صحت اور بہبود کو متاثر کرتا رہے گا اور ان کی زندگی خطرے میں رہے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ صنفی عدم مساوات اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باعث خواتین کی ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔ تمام متاثرین کو یکساں طور سے علاج کی فراہمی کے لیے حکومتوں کو اس بیماری کی تشخیص سے متعلق اختراعی اقدامات میں اضافے کے لیے مدددینا ہو گی اور یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور بالغوں کو ضرورت کے مطابق علاج اور مدد میسر آئے۔