انسانی کہانیاں عالمی تناظر

مختلف جنسی رحجانات پر تعزیری قوانین لگانا انسانی حقوق کی پامالی

بالغوں کے باہمی رضامندی سے ہم جنسی اظہار کو جرم قرار دینا حکومت کی جانب سے مداخلت بیجا کے مترادف اور آزادی و نجی اخفا کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
© Unsplash/Aiden Craver
بالغوں کے باہمی رضامندی سے ہم جنسی اظہار کو جرم قرار دینا حکومت کی جانب سے مداخلت بیجا کے مترادف اور آزادی و نجی اخفا کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

مختلف جنسی رحجانات پر تعزیری قوانین لگانا انسانی حقوق کی پامالی

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک اور یو این ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کہا ہے کہ 'ایل جی بی ٹی کیو آئی+' افراد کے خلاف تعزیری قوانین انسانی حقوق کی پامالی ہیں اور ان سے صحت عامہ کو نقصان ہوتا ہے۔

ایک مشترکہ بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرست خواتین اور مردوں، دو جنسی رحجان کے حامل، مخنث، کوئیر اور دیگر (ایل جی بی ٹی کیو آئی+) لوگوں کو مجرم قرار دینے کی دورحاضر میں کوئی گنجائش نہیں۔

Tweet URL

بہت سے ممالک میں ان کے حقوق کو تسلیم کیا جا رہا ہے جو خوش آئند ہے اور دنیا بھر میں ایسے لوگوں کو مجرم اور سزاوار قرار دینے کے قوانین کو ختم کرنے میں ہونے والی پیش رفت جاری رہنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس سوچ کو بھی فروغ دینا ہو گا کہ لوگوں کو ان کے جنسی رحجان اور محبت کے انتخاب کی بنیاد پر مجرم قرار دینا درست نہیں۔

ہائی کمشنر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف ہر طرح کے تعزیری قوانین کا خاتمہ کریں۔ اس ضمن میں حقوق مخالف پالیسیوں، تجاویز اور پروپیگنڈے کو بھی روکنے کی ضرورت ہے جس سے ان لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ ملے گا۔

صحت عامہ کا نقصان

'ایل جی بی ٹی کیو آئی+' افراد کو مجرم قرار دینے سے طبی خدمات تک رسائی کے خواہاں لوگوں اور نچلی سطح پر یہ خدمات انجام دینے والے کارکنوں میں خوف پھیلتا ہے۔

جن ممالک میں یہ صورتحال ہے وہاں ایچ آئی وی کی روک تھام سے متعلق خدمات کی فراہمی کی صورتحال ناقص ہے اور ایسی خدمات حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ ایک جائزے کے مطابق، ذیلی صحارا افریقہ کے جن ممالک میں ہم جنس تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے وہاں ہم جنس پرست مردوں میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

جن ممالک میں 'ایل جی بی ٹی کیو آئی +' افراد کو مجرم قرار دیا جاتا ہے وہاں ایچ آئی وی کا شکار تمام لوگوں میں اپنی جسمانی صورتحال اور اس کے علاج سے متعلق بہت کم معلومات ہیں۔

بدسلوکی اور تشدد

بیان میں کہا گیا ہے، اس بات کی معقول شہادت موجود ہے کہ ایسے امتیازی قوانین کے باعث لوگوں کو نفرت پر مبنی وحشیانہ جرائم، پولیس کی بدسلوکی، ہراسانی، بلیک میلنگ، تشدد اور صحت، تعلیم و رہائش کی سہولیات تک رسائی سے محرومی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس طرح ان لوگوں کے خلاف جرائم کرنے والوں سے بازپرس کا امکان بھی بہت محدود ہو جاتا ہے، قانون کی عملداری کمزور پڑ جاتی ہے اور ان لوگوں، ان کے خاندانوں، برادریوں اور پورے معاشرے کو نقصان ہوتا ہے۔

انڈیا کی ریاست اڑیسہ میں ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق کے لیے متحرک سادھنا۔
UN News
انڈیا کی ریاست اڑیسہ میں ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق کے لیے متحرک سادھنا۔

خوش آئندہ پیش رفت

گزشتہ 10 سال میں انگولا، اینٹی گوا اینڈ بارباڈوا، بارباڈوز، بیلیز، بھوٹان، بوٹسوانا، جزائر کک، ڈومینیکا، گیبون، انڈیا، ماریشس، موزمبیق، نمیبیا، ناؤرو، پالاؤ، سینٹ کٹس اینڈ نیویس، سیشلز، سنگاپور اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو نے ایسے قوانین واپس لے لیے ہیں جن کے تحت 'ایل جی بی ٹی کیو آئی +' لوگوں کو مجرم قرار دیا جاتا تھا۔

دونوں اداروں کے سربراہوں نے اپنے بیان میں نمیبیا کی ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کے ایک حصے (خواہ یہ لوگ معاشرے کی اکثریت ہی کیوں نہ ہوں) کے نجی اخلاقی نقطہ ہائے نظر کو محض تعصب کی بنا پر مجرمانہ قرار دینا قانونی طور پر درست نہیں۔

بالغوں کے باہمی رضامندی سے ہم جنسی اظہار کو جرم قرار دینا حکومت کی جانب سے مداخلت بیجا کے مترادف اور آزادی و نجی اخفا کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے بہت سے قوانین دراصل نوآبادیاتی دور کی میراث ہیں جنہیں غیرملکی طاقتوں نے نافذ کیا تھا۔

آرمینیا میں ان لوگوں کی یاد میں چراغ روشن کیے جا رہے ہیں جنہوں نے ایڈز کے ہاتھوں جان کی بازی ہار دی۔
Photo IOM Armenia 2018
آرمینیا میں ان لوگوں کی یاد میں چراغ روشن کیے جا رہے ہیں جنہوں نے ایڈز کے ہاتھوں جان کی بازی ہار دی۔

ہراسانی کا مکروہ ہتھیار

اسی حوالے سے ماریشئس کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 'ایل جی بی ٹی کیو آئی +' افراد کے خلاف قوانین (سابقہ) ملکی عوام کی خواہش کا اظہار نہیں بلکہ انہیں نوآبادیاتی طاقتوں کی جانب سے مسلط کیا گیا تھا۔

سنگاپور میں ایسے قوانین کو منسوخ کرتے وقت وہاں کی حکومت کا کہنا تھا کہ بالغوں کے مابین باہمی رضامندی پر مبنی کسی بھی نجی جنسی رویے کو جرم قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایسے قوانین کی منسوخی کے حوالے سے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تعزیری قوانین ان لوگوں کو ہراساں کرنے کا مکروہ ہتھیار بن گئے ہیں جس کے ذریعے انہیں امتیازی اور غیرمساوی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔