انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: حفظان صحت کے نظام کی تباہی پر پولیو پھیلنے کا خطرہ، یو این ادارے

غزہ میں نقل مکانی پر مجبور خاندان۔
© UNRWA
غزہ میں نقل مکانی پر مجبور خاندان۔

غزہ: حفظان صحت کے نظام کی تباہی پر پولیو پھیلنے کا خطرہ، یو این ادارے

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ سے ہونے والی بربادی اور نظم و نسق کے مکمل خاتمے کے بعد اب لوگوں کو پولیو کی وبا سے خطرہ لاحق ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ترجمان کرسچین لنڈمیئر نے کہا ہے کہ تاحال کسی فرد کے اس بیماری سے بیمار یا معذور ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ 'ڈبلیو ایچ او' اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ادارے (انرا)، مقامی طبی حکام اور شراکت داروں کے تعاون سے وائرس کے پھیلاؤ کی وسعت کا جائزہ لے رہا ہے۔

Tweet URL

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ تعین ہو سکے گا کہ وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی ٹیکوں کی مہمات سمیت کون سے اقدامات درکار ہیں۔

غزہ میں جنگ کے نتیجے میں نکاسی آب کے نظام کی تباہی پولیو کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہے۔ 23 جون کو خان یونس اور دیرالبلح میں چھ مقامات پر گندے پانی کے نمونوں میں پولیو کے ٹائپ 2 (وی ڈی پی وی 2) وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے۔

جسمانی معذوری کا خطرہ

'ڈبلیو ایچ او' میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے افسر اطلاعات آلیور روزنبیئر نے بتایا ہے کہ پولیو وائرس ایسے علاقوں میں سامنے آنے کا خدشہ ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہ لگائے گئے ہوں۔ ایسے میں منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین میں شامل کمزور وائرس طاقتور ہو جاتا ہے اور اپنے متاثرین کو معذور کر دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب ایسا ہو تو اس کی علامات سامنے آ جاتی ہیں۔ غزہ میں پولیو کا جو وائرس پایا گیا ہے وہ متاثرین کو کمزور کرنے کی طاقت پکڑ چکا ہے۔ اگرچہ یہ وائلڈ وائرس نہیں ہے لیکن اس کی معذور کر دینے کی صلاحیت غزہ کی آبادی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، اگرچہ غزہ سے پولیو وائرس کا 25 سال پہلے خاتمہ ہو گیا تھا اور جنگ سے پہلے 95 فیصد بچوں کو ویکسین دی جا رہی تھی۔ لیکن، نو ماہ سے جاری جنگ، بڑے پیمانے پر متواتر نقل مکانی اور نظام صحت کی تباہی، سلامتی کے فقدان، طبی سازوسامان کی قلت، آلودہ پانی اور نکاسی آب کا نظام کمزور پڑ جانے سے قابل انسداد بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور پولیو بھی انہی میں شامل ہے۔

کرسچین لنڈمیئر نے کہا ہےکہ آج غزہ کے 36 میں سے 16 ہسپتال ہی کسی حد تک فعال ہیں جبکہ 105 بنیادی مراکز صحت میں سے صرف 45 کام کر رہے ہیں۔ جنگ بندی کی صورت میں ہی لوگوں کو بیماریوں سے حفاظت کے ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں اور جنگ سے ہونے والے طبی نقصان کا ازالہ بھی زمانہ امن میں ہی ممکن ہے۔

نقل مکانی اور سفید جھنڈے

مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر۔او پی ٹی) نے بتایا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر تکالیف کا سامنا ہے جو پناہ کی تلاش میں کہیں جاتے وقت سفید جھنڈے اپنے پاس رکھتے ہیں۔

دفتر کے سربراہ اجیت سنگھے نے کہا ہے کہ اِن دنوں لوگ ایک مرتبہ پھر شمال سے جنوب کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں اور یہ سفر خطرے سے خالی نہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک سڑک پر انہیں گھریلو سامان سے لدا ٹرک اور موٹرسائیکل دکھائی دیے لیکن ان کے پاس کوئی فرد موجود نہیں تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر سفر کرنے والے لوگ زندہ نہیں بچے تھے۔ اسی طرح انہوں نے ایک گدھا گاڑی کو بھی دیکھا جس پر خون آلود سامان تو موجود تھا لیکن اس پر کوئی فرد سوار نہیں تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان لوگوں پر حملے کس نے اور کیوں کیے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ غزہ میں مقامی پولیس کے لیے کام کرنے والوں اور امدادی کارکنوں کو غیرقانونی طور پر ہلاک کیا جا رہا ہے جس سے نظم و نسق بگڑ گیا ہے اور شہری آبادی کی بقا کے لیے درکار امدادی سامان کی فراہمی محدود ہو گئی ہے۔ ان حالات میں ہر جگہ افراتفری اور لاقانونیت جنم لے رہی ہے۔