مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے طبی مراکز پر ہزار سے زیادہ حملے
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ غزہ میں نو ماہ سے جاری جنگ میں طبی مراکز پر 1,000 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں اور جنوبی علاقے رفح میں اسرائیل کی عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد وہاں کوئی ہسپتال فعال نہیں رہا۔
مغربی کنارے اور غزہ کے لیے 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے کہا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل غزہ کے ہسپتالوں میں 3,500 بستر دستیاب تھے اور اب یہ گنجائش کم ہو کر 1,400 رہ گئی ہے۔ان میں 600 بستر فیلڈ ہسپتالوں کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں اور اس طرح غزہ کی وزارت صحت اور غیرسرکاری اداروں کے ہسپتالوں میں بستروں کی مجموعی تعداد 800 ہے جو 22 لاکھ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی ناکافی ہے۔
طبی راہداریوں کی ضرورت
انہوں نے بتایا ہے کہ شدید بیمار اور زخمی لوگوں کو غزہ سے باہر علاج کی سہولت فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ ان لوگوں کی تعداد تقریباً 10 ہزار ہے جن میں سے نصف وہ ہیں جنہیں ریڑھ کی ہڈی کے زخموں کا علاج درکار ہے یا ان کے جسمانی اعضا کٹ گئے ہیں۔
اگرچہ ہمسایہ ممالک سمیت مغربی کنارے اور مشرق یروشلم کے ہسپتال بھی ایسے مریضوں کو لینے کے لیے تیار ہیں تاہم اس مقصد کے لیے غزہ سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاوہ رفح کے راستے مصر اور اردن کی جانب محفوظ راہداریوں کا قیام ضروری ہے۔
ڈاکٹر پیپرکورن کا کہنا ہے کہ متعدد ممالک نے ایسے مریضوں اور زخمیوں کے طبی بنیادوں پر انخلا میں مدد کی پیش کش ہے۔ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے معاملے کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔
ذہنی و نفسیاتی مسائل
غزہ میں ذہنی صحت کا بحران بھی تشویشناک صورت اختیار کر گیا ہے جس سے علاقے کی 22 لاکھ آبادی اور امدادی کارکن یکساں طور سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر پیپرکورن کا کہنا ہے کہ نوعمر افراد، خواتین، مردوں، معمر لوگوں، طبی کارکنوں اور حملوں کے بعد سب سے پہلے مدد کو پہنچنے والے لوگوں سمیت سبھی ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ طبی بحالی کی ہر کوشش میں اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
سکولوں پر حملے
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں سکولوں پر حملہ روزانہ کا معمول بن گئے ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر بتایا ہے کہ گزشتہ 10 روز میں سکولوں پر کم از کم آٹھ حملے کیے گئے ہیں جن میں 'انرا' کے سکول بھی شامل ہیں جنہیں اب پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
کمشنر جنرل کا کہنا ہے کہ جنگ نے غزہ کی لڑکیوں اور لڑکوں سے ان کا بچپن اور تعلیم چھین لی ہے۔ سکول جنگی ہدف نہیں ہوتے اور متحارب فریقین انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔