انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تنازعات اور موسمیاتی بحرانوں سے بچوں کی غذائی غربت میں اضافہ

مالی کے علاقے باوا کے ایک مرکز صحت پر بچوں کو غذائیت سے بھرپور کھانے کی اشیاء دی جا رہی ہیں (فائل فوٹو)۔
© UNICEF/Tiécoura N’Daou
مالی کے علاقے باوا کے ایک مرکز صحت پر بچوں کو غذائیت سے بھرپور کھانے کی اشیاء دی جا رہی ہیں (فائل فوٹو)۔

تنازعات اور موسمیاتی بحرانوں سے بچوں کی غذائی غربت میں اضافہ

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ عدم مساوات، جنگوں اور موسمیاتی بحران کے باعث بچوں میں غذائی غربت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

یونیسف کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچوں کو غذائیت اور متنوع خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسی خوراک کی کمی سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

Tweet URL

غذائی غربت کا سامنا کرنے والے 18 کروڑ 10 لاکھ بچوں میں سے 65 فیصد کا تعلق 20 ممالک سے ہے۔ ان میں 6 کروڑ 40 لاکھ جنوبی ایشیا اور 5 کروڑ 90 لاکھ ذیلی صحارا افریقہ میں رہتے ہیں۔ ان میں تقریباً نصف بچوں کا تعلق کم آمدنی والے خاندانوں سے ہے۔ 

ناقص خوراک

رپورٹ کی مرکزی مصنف اور یونیسف کی غذائی ماہر ہیریٹ تورلیسے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایک چوتھائی بچے انتہائی ناقص خوراک پر گزارا کر رہے ہیں جنہیں روزانہ بنیادی ضرورت کی دو یا اس سے کم غذائیں ہی میسر آتی ہیں۔ 

انہوں نے افغانستان کی مثال دیتے ہوئے بتایا ہے کہ وہاں بیشتر بچوں کو روزانہ کچھ روٹی اور دودھ ہی ملتا ہے اور وہ سبزیوں، پھلوں اور پروٹین کے حصول سے محروم ہیں۔ یہ نہایت پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ ایسی غذا بچوں کی بقا کے لیے کافی نہیں ہے۔

یونیسف حکومتوں کے ترقیاتی و امدادی شراکت داروں پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو ترجیح بنائیں جن سے بچوں میں غذائی غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس مسئلے کے خاتمے کو پالیسی کا لازمہ بنانا ہو گا تاکہ غذائی قلت پر قابو پانے سے متعلق پائیدار ترقی کے اہداف کو بھی حاصل کیا جا سکے۔

غذائی نظام کی ناکامی

رپورٹ کے مطابق کئی دیگر عوامل بھی بچوں میں بڑے پیمانے پر پھیلتی غذائی غربت کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں خوراک کے نظام بھی شامل ہیں جو بچوں کو حسب ضرورت غذائیت فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں لوگوں میں غذائیت والی خوراک کے حصول کی استطاعت نہ ہونا اور والدین کی بچوں کو مثبت طور سے غذائیت کی فراہمی کی عدم اہلیت کا شمار بھی انہی عوامل میں ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک تاحال کووڈ۔19 وباکے اثرات سے بحالی کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ خوراک کی قیمتیں اور رہن سہن کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔ 

جنگوں کے ہولناک اثرات

رپورٹ کے مطابق غزہ میں 90 فیصد بچوں کو بلند درجے کی غذائی غربت کا سامنا ہے جہاں آٹھ ماہ سے جنگ جاری ہے۔ صومالیہ میں جنگ اور قدرتی آفات کا سامنا کرتے نصف سے زیادہ بچوں کو غذائی غربت لاحق ہے۔ 

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگیں والدین کی اپنے بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی اہلیت پر کس قدر ہولناک اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح تنازعات کس قدر تیزی سے بچوں کو خطرناک درجے کی غذائی قلت کا شکار بنا دیتے ہیں۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برکینا فاسو جیسے بعض ممالک اپنے ہاں بچوں کی غذائی غربت میں نمایاں کمی لائے ہیں۔ افریقہ کے اس ملک میں ایسے بچوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی آ گئی ہے۔ 

ہیریٹ تورلیسے کا کہنا ہے کہ کہ کم آمدنی والے ممالک بھی درست سمت میں قدم اٹھا کر بچوں کی غذائی غربت میں کمی لا سکتے ہیں۔ برکینا فاسو اس کی واضح مثال ہے جس نے مقامی طور پر دالوں، سبزیوں یا مرغی کے گوشت جیسی غذائیت والی خوراک کی فراہمی بہتر بنا کر بچوں کی غذائی صورتحال کو بہتر بنا لیا ہے۔ 

حکومتوں سے اپیل

ہیریٹ تورلیسے نے کہا ہے کہ طبی نظام اس قدر مضبوط ہونے چاہئیں کہ وہ خاندانوں کو بچوں کی خوراک سے متعلق مشورے دے سکیں اور ان کی مدد کر سکیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو غذائی غربت کا سامنا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ان کی جسمانی نشوونما اور ترقی پر مرتب ہونے والے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

یونیسف حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی غذائیت والی خوراک تک رسائی کو مزید بہتر بنائیں اور آمدن کی غربت سے نمٹنے کے لیے سماجی تحفظ کے نظام فعال کریں۔