انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امیر ملکوں میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ غربت کا شکار، یونیسف

دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے بعض میں بچوں کی غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
© UNICEF/Ashley Gilbertson
دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے بعض میں بچوں کی غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

امیر ملکوں میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ غربت کا شکار، یونیسف

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں 20 فیصد بچے غربت کا شکار ہیں جس کے ان کی زندگی پر طویل اور تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

غربت میں رہنے والے بیشتر بچے ناکافی غذائیت، کپڑوں، سکول کے سامان یا مناسب رہائش کے بغیر پرورش پاتے ہیں۔ غربت کے باعث ان کے حقوق کی تکمیل نہیں ہوتی اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کمزور پڑ سکتی ہے۔

Tweet URL

یہ بات یونیسف کے عالمی تحقیقی مرکز 'اِنوسینٹی' کی جاری کردہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ اس میں بیان کردہ معلومات معاشی تعاون و ترقی کی تنطیم (او ای سی ڈی) اور یورپی یونین (ای یو) کے رکن ممالک کے جائزے سے سامنے آئی ہیں۔ اس کے مطابق 2014 اور 2021 کے درمیان دنیا کے 40 امیر ترین ممالک میں بچوں کی غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

6 کروڑ 90 لاکھ غریب بچے

رپورٹ میں ترقی پذیر معیشتوں میں بچوں کی بہبود کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران غربت میں تقریباً آٹھ فیصد کمی آئی ہے، تاہم اب بھی 69 ملین سے زیادہ بچوں کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہے جن کی آمدنی اوسط قومی شرح سے 60 گنا کم ہے۔ 

بچوں کی غربت پر قابو پانے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں پولینڈ اور سلویینہ سرفہرست ہیں۔ ان کے بعد جمہوریہ کوریا کا نمبر آتا ہے۔ اس سے برعکس بعض امیر ترین ممالک اس معاملے میں پیچھے ہیں۔

'اِنوسینٹی' کے ڈائریکٹر بو وکٹر نیلونڈ کا کہنا ہے کہ بچوں پر غربت کے اثرات زندگی بھر پر محیط ہو سکتے ہیں۔ 

زندگی بھر کے اثرات

رپورٹ میں بڑے پیمانے پر عدم مساوات کا بھی تذکرہ ہے۔ 38 ممالک کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم بچوں کے غربت میں رہنے کا خدشہ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ جسمانی معذور یا قومی و نسلی اقلیتی پس منظر کے حامل بچوں میں بھی یہ خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ 

رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے غربت کا سامنا کرتے ہیں ان کا سکول کی تعلیم مکمل کرنے کا امکان کم ہوتا ہے اور اس طرح بڑے ہو کر وہ کم آمدنی پاتے ہیں۔ بعض ممالک میں غریب علاقوں میں پیدا ہونے والے افراد کی عمر ممکنہ طور پر امیر علاقوں کے لوگوں کی نسبت سات سے آٹھ سال کم رہتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق زیرجائزہ رہنے والے ممالک میں 2012 سے 2019 کے دوران مستحکم معاشی ترقی ہوئی۔ اس طرح انہیں 2008 تا 2010 جاری رہنے والی اقتصادی گراوٹ کے اثرات سے بحالی کا موقع ملا۔ 

اگرچہ اس دوران متعدد ممالک میں بچوں کی غربت میں کمی آئی تاہم بعض امیر ترین ممالک میں اس سے برعکس صورتحال بھی دیکھی گئی۔

حیران کن فرق

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی ملک کی معاشی حالت سے قطع نظر بچوں کے رہن سہن کے حالات میں بہتری لانا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر پولینڈ، سلوینیہ، لٹویا اور لیتھوانیا کا شمار 'او ای سی ڈی' اور یورپی یونین کے امیر ممالک میں نہیں ہوتا۔ تاہم یہ ممالک بچوں کی غربت میں نمایاں کمی لائے ہیں۔ پولینڈ میں یہ کمی منفی 38 فیصد اور دیگر تینوں ممالک میں منفی 31 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 

دریں اثنا، اعلیٰ آمدنی والے پانچ ممالک کو دیکھا جائے تو برطانیہ میں یہ شرح +20 فیصد اور فرانس، آئس لینڈ، ناروے اور سوئزرلینڈ میں تقریباً +10 فیصد تھی۔ اس طرح ان ممالک میں 2014 کے بعد ایسے بچوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا جن کے گھرانے مالی مشکلات کا شکار رہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سلوینیہ اور سپین جیسے ایک جیسی قومی آمدنی والے ممالک میں بچوں کی غربت میں واضح فرق دیکھا گیا۔ سلوینیہ میں یہ شرح 10 اور سپین میں 28 فیصد تھی۔

نقد امداد کے دور رس نتائج

اس جائزے کے مصنفین نے واضح کیا ہے کہ بچوں کی غربت کو ختم کرنے کے لیے حکومتوں اور متعلقہ فریقین کو بچوں کے لیے سماجی تحفظ میں فوری اضافہ کرنا ہو گا۔ اس میں بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے نقد مالی مدد بھی شامل ہے۔ 

نیلونڈ کا کہنا ہے کہ نقد امداد سے غربت کم کرنے میں فوری مدد مل سکتی ہے۔ حکام بچے اور خاندان پر خرچ کیے جانے والے مالی وسائل میں اضافہ کر کے اور اسے ترجیح بنا کر یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے حکومتوں سےکہا ہے کہ وہ اس معاملے میں اب تک کامیاب ثابت ہونے والی پالیسیوں کا جائزہ لیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام بچوں کو معیاری بنیادی سہولیات تک رسائی ہو۔ ان میں بچوں کی نگہداشت و تعلیم، اچھے روزگار کے مواقع، خاندان دوست پالیسیاں اور اقلیتی گروہوں اور والدین میں سے کسی ایک کی سربراہی میں چلنے والے خاندانوں کی مخصوص ضروریات کی تکمیل بھی شامل ہے۔