انسانی کہانیاں عالمی تناظر

برڈ فلو کا انسانوں میں پھیلاؤ صحت عامہ کے لیے باعث تشویش، ماہرین

ماہرین کا کہنا ہے کہ بطخوں اور مرغیوں کو متاثر کرنے والی یہ بیماری گزشتہ دو برس میں جانوروں کی عالمی وبا بن گئی ہے۔
© Unsplash/Obie Fernandez
ماہرین کا کہنا ہے کہ بطخوں اور مرغیوں کو متاثر کرنے والی یہ بیماری گزشتہ دو برس میں جانوروں کی عالمی وبا بن گئی ہے۔

برڈ فلو کا انسانوں میں پھیلاؤ صحت عامہ کے لیے باعث تشویش، ماہرین

صحت

اقوام متحدہ کے طبی ماہرین نے دنیا بھر میں انسانوں سمیت ممالیہ میں برڈ فلو کے پھیلاؤ کو صحت عامہ کے لیے نمایاں خطرہ قرار دیتے ہوئے چھوت کی اس بیماری پر قابو پانے کے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعلیٰ سطحی سائنس دان ڈاکٹر جیریمی فررر نے بتایا ہے کہ پرندوں کے انفلوئنزا اوئرس یا 'ایچ 5 این 1' سے اب تک متاثرہ سینکڑوں لوگوں میں شرح اموات انتہائی حد تک بلند رہی ہے۔تاہم اب تک اس وائرس کے ایک سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بطخوں اور مرغیوں کو متاثر کرنے والی یہ بیماری گزشتہ دو برس میں جانوروں کی عالمی وبا بن گئی ہے۔ اس کا ممالیہ جانداروں میں پھیلاؤ باعث تشویش ہے اور اب یہ وائرس خود کو تبدیل کر کے انسانوں کو متاثر کرنے کے قابل بھی ہو گیا ہے۔ اس طرح خدشہ ہے کہ آئندہ یہ مرض ایک سے دوسرے انسان کو بھی منتقل ہونے لگے گا۔ 

'وائرس کہاں سے آیا؟'

ڈاکٹر فیرر نے امریکہ میں گایوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے طبی حکام پر اس معاملے کی مزید نگرانی اور تحقیقات کے لیے زور دیا ہے کیونکہ یہ وائرس خود کو کئی انداز میں تبدیل کر کے پھیل سکتا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا کھوج لگانا ہو گا کہ آیا گایوں کے جسم میں دودھ پیدا کرنے کا نظام 'ایروسول' تخلیق کر کے اس وائرس کو پھیلا رہا ہے؟ کیا یہ وائرس اس ماحول سے پھیل رہا ہے جس میں مویشیوں کو رکھا جاتا ہے؟ کیا نقل و حمل کا نظام ملک میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہے؟ 

موجودہ حالات میں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ اگر یہ وائرس انسانوں کو دوسرے انسانوں سے لاحق نہیں ہو رہا تو فوری طور پر اس کی ویکسین، علاج معالجہ اور بیماری کی تشخیص کا طریقہ کار تیار کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین امریکہ میں گایوں میں انفلوئنزا وائرس  کے معاملے کی مزید نگرانی اور تحقیقات کے لیے زور دے رہے ہیں۔
Unsplash/Donald Giannatti
ماہرین امریکہ میں گایوں میں انفلوئنزا وائرس کے معاملے کی مزید نگرانی اور تحقیقات کے لیے زور دے رہے ہیں۔

چھوتی امراض کی نئی تعریف

یہ صورتحال ایسے وقت پیدا ہوئی ہے جب 'ڈبلیو ایچ او' نے چھوت کی بیماریوں کی تعریف کے لیے نئے الفاظ متعارف کرائے ہیں تاکہ کسی نئی اور متوقع عالمگیر وبا کی صورت میں بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کیا جا سکے۔

انہوں نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ابتداً یہ اقدام کووڈ۔19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہنگامی حالات کے سبب شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ بات بھی پیش نطر تھی کہ معالجین اور سائنس دان اس حوالے سے متفقہ رائے کے حامل نہیں تھے کہ کورونا وائرس کس طرح انسانوں میں منتقل ہوا۔ یوں اس وبا پر قابو پانے میں لاحق مسائل بھی بڑھ گئے تھے۔

اس مسئلے سے نمٹںے کے لیے 'ڈبلیو ایچ او' کے زیرقیادت افریقہ، چین، یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے صحت عامہ کے چار بڑے اداروں کے ساتھ مشاورت کی گئی۔ اس کے بعد متعدد نئی اصطلاحات پر اتفاق رائے کا اعلان کیا گیا۔ ان میں 'متعدی تنفسی ذرات' یا 'آئی آر پی' بھی شامل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 'ایروسول' اور 'قطروں' کے بجائے یہ نئی اصطلاح استعمال کی جانی چاہیے تاکہ متعلقہ ذرات کے حجم سے متعلق کوئی غلط فہمی جنم نہ لے۔

عالمگیر اپیل

ڈاکٹر فیرر نے کہا ہے کہ نئی اصلاحات کے علاوہ یہ اقدام مزید پیچیدہ اور مزید تواتر سے سامنے آنی والی وباؤں پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کے عزم کو بھی تقویت دیتا ہے۔ یہ نہایت اہم نوعیت کا پہلا قدم ہے تاہم آئندہ اس معاملے میں منظم طور سے کام کرنا ہو گا۔ 

اب سائنس دان اور معالجین ایک ہی طرح کی اصلاحات اور زبان استعمال کر رہے ہیں اور اب اس سائنس کی ضرورت ہے جو تپ دق، کووڈ اور سانس کے نظام کو متاثر کرنے والے دیگر جرثوموں کی انسانوں میں منتقلی کے بارے میں ثبوت مہیا کرے۔ اس طرح دنیا یہ جان سکے گی کہ ماضی کے مقابلے میں اب ان بیماریوں پر بہتر طور سے کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ 

جیریمی فیرر نے 'ایچ 5 این 1' سے صحت عامہ کو لاحق ممکنہ خطرے کا تذکرہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ویکسین کی تیاری اس سطح پر نہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اسی طرح دنیا بھر میں تمام علاقائی و ملکی طبی دفاتر اور صحت عامہ کے حکام کے پاس 'ایچ 5 این 1' کی تشخیص کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔