انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سلامتی کونسل: غزہ میں نہ عام شہری محفوظ نہ امدادی کارکن، رپورٹ

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ڈائریکٹر رمیش راجاسنگھم ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ڈائریکٹر رمیش راجاسنگھم ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل سے خطاب کر رہے ہیں۔

سلامتی کونسل: غزہ میں نہ عام شہری محفوظ نہ امدادی کارکن، رپورٹ

امن اور سلامتی

امدادی حکام نے سلامتی کونسل سے غزہ میں تباہی روکنے کے لیے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں امدادی کارکنوں اور شہریوں کی منظم ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ڈائریکٹر رمیش راجاسنگھم اور غیرسرکاری ادارے 'سیو دی چلڈرن' کی صدر جینٹی سوئریپٹو نے کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ میں پھیلی بھوک نے لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

علاقے میں 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جبکہ 17 لاکھ افراد یا دو تہائی آبادی کو جنوب میں رفح کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ 

اس موقع پر کونسل کے ارکان نے غزہ میں 'ورلڈ سنٹرل کچن' کے کارکنوں کی ہلاکت کی مذمت کی اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا۔ متعدد ارکان نے جنگ بندی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل طور سے عملدرآمد کرنے کے لیے بھی کہا جس میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کہا گیا تھا۔

ورلڈ سنٹرل کچن کا امدادی سامان ضرورتمندوں تک پہنچنے کے لیے تیار ہے (فائل فوٹو)۔
© Open Arms
ورلڈ سنٹرل کچن کا امدادی سامان ضرورتمندوں تک پہنچنے کے لیے تیار ہے (فائل فوٹو)۔

امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں 

راجا سنگھم نے کونسل کو بتایا کہ 'ورلڈ سنٹرل کچن' کے سات کارکنوں کی ہلاکت اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں 220 سے زیادہ امدادی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 179 اقوام متحدہ کے اہلکار تھے۔ 

سلامتی کی ضمانت نہ ملنے کے باعث 'ورلڈ سنٹرل کچن' کے علاوہ امدادی ادارے 'انیرا' نے بھی اپنی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔ یہ دونوں ادارے ہر ہفتے غزہ کے ہزاروں لوگوں کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ اپنا کام دوبارہ کب شروع کریں گے۔ 

غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملے بدستور جاری ہیں اور بظاہر وہ رفح میں عسکری کارروائی کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں شمالی غزہ کا الشفا ہسپتال اسرائیل کے 14 روزہ محاصرے میں تقریباً پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔

ان حالات میں متحارب فریقین کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کے حوالے سے سنگین سوالات ابھرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ 

'انرا' کے خلاف اسرائیلی کارروائی

راجا سنگھم نے کونسل کو بتایا کہ شمالی غزہ میں ہر چھ میں سے ایک بچہ شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہے اور بھوک کے باعث اب تک 30 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کو شمالی غزہ میں امداد پہنچانے سے روک رکھا ہے جبکہ ہزاروں فلسطینیوں کی زندگی کا انحصار اسی ادارے کے ذریعے فراہم کردہ امداد پر ہے۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ اگر غزہ میں قحط کے خطرے اور تباہ کن انسانی حالات پر قابو پانا ہے تو تمام ضرورت مند لوگوں تک انسانی امداد کی محفوظ، تیزرفتار اور بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے 'انرا' کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ 

انسانی قانون کی پابندی کا مطالبہ

عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد اور بنیادی خدمات کی فراہمی میں سہولت دینے کے احکامات اور سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں کیے گئے مطالبات کے باوجود حالات میں بہتری نہیں آئی۔ 

انہوں نے کہا کہ اس المیےکو یونہی جاری رہنے نہیں دیا جا سکتا۔ تمام یرغمالیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا ہونا چاہیے اور دوران قید ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ اسی طرح غزہ کے لوگوں پر بھی بین الاقوامی انسانی قانون اور عالمی عدالت کے احکامات کی پابندی لازمی ہے۔

این جی او 'سیو دی چلڈرن' کی صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر جینٹی سوئریپٹو سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
این جی او 'سیو دی چلڈرن' کی صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر جینٹی سوئریپٹو سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔

ہزاروں بچوں کی زندگی کو خطرہ

'سیو دی چلڈرن' کی صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر جینٹی سوئریپٹو نے غزہ میں ہلاک ہونے والے 200 سے زیادہ امدادی کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کیا جن میں تقریباً تمام فلسطینی ہیں۔ ان میں سیو دی چلڈرن کے سمیع عویدہ بھی شامل ہیں جو 12 دسمبر کو اسرائیل کے فضائی حملے میں اپنی اہلیہ اور چار بچوں سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔

غزہ میں 14 ہزار بچوں کو غیرضروری طور پر اور پرتشدد انداز میں ہلاک کیا گیا، ہزاروں بچے لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگر 7 اکتوبر کے بعد ہلاک ہونے والے ہر اسرائیلی اور فلسطینی بچے کا نام اور عمر دہرائی جائے تو اس میں 18 گھنٹے صرف ہوں گے۔ 

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد گزشتہ چار برس کے دوران دنیا بھر کے مسلح تنازعات میں ہلاک ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد سے تجاوز کر گئی ہے۔ 

انسانی ساختہ قحط

جینٹی سوئریپٹو نے کونسل کو بتایا کہ غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 350,000 بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ خاص طور پر شمالی علاقے میں بھوک تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ انسان کا لایا قحط ہے۔ 

اس جنگ میں تمام متحارب فریقین بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس کے ذمہ داروں سے کوئی بازپرس نہیں ہو رہی۔ طاقتور ممالک اس تنازع کو ختم کرانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کر رہے۔ خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں غزہ کے بچے گولیوں اور بموں کے علاوہ بھوک اور غذائی قلت سے بھی ہلاک ہوں گے۔

انہوں نے غزہ میں انسانی امداد کی محفوظ رسائی میں سہولت دینے، امدادی کارکنوں کے تحفظ اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں، سکولوں، آبی نظام اور گھروں کی تعمیرنو اور بحالی کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔

اجلاس سے فلسطین، اسرائیل، چین، روس، فرانس، الجزائر اور امریکہ کے سفارتی نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔ فلسطین جس کی حیثیت اقوام متحدہ میں مبصر کی ہے نے مستقل رکنیت کے لیے درخواست جمع کرائی۔ چین نے فلسطین کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت دینے کے مطالبے کی حمایت کی۔