انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ اور یوکرین کے بحرانوں کے دوران یو این چیف کی امن اپیل

غزہ کے علاقے خان یونس میں املاک کی تباہ کاری جاری ہے۔
© UNICEF/James Elder
غزہ کے علاقے خان یونس میں املاک کی تباہ کاری جاری ہے۔

غزہ اور یوکرین کے بحرانوں کے دوران یو این چیف کی امن اپیل

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے غزہ میں جنگ بندی اور یوکرین میں قیام امن کے اپنے مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ افراتفری پر مبنی موجودہ عالمی منظرنامے میں بعض ممالک اور مسلح گروہ سمجھتے ہیں کہ احتساب کے مؤثر نظام کی عدم موجودگی میں وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

برسلز میں یورپی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افراتفری کی دنیا میں اصولوں پر قائم رہنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، اور یہ اصول اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، ملکوں کی علاقائی سالمیت، اور بین الاقوامی انسانی قوانین میں پنہاں ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین میں امن ہونا ضروری ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔

یورپی کونسل کے اجلاس میں شرکت سے پہلے سیکرٹری جنرل نے صحافیوں کے ساتھ مختصر بات چیت میں 7 اکتوبر کو حماس کی زیر قیادت دہشتگردانہ حملوں جن میں تقریباً 1,200 اسرائیلی اور غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے تھے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب سے وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے ہیں غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کی اس سے پہلے دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

’فاقہ کشی سے اموات‘

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے شمالی غزہ میں کم عمر افراد کی حالت زار پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً چھ ماہ کی جنگ کے بعد ہسپتالوں میں یا تو وہ شدید زخمی حالت میں پڑے ہیں یا پھر اطلاعات کے مطابق فاقوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔

ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک ویڈیو لگائی ہے جس میں الشفاء ہسپتال میں ایک نوجوان رفیق کو دیکھا جا سکتا ہے جسے غزہ شہر میں اس کے گھر کے ملبے میں سے نکالا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 17 مارچ کو فلمائی گئی ویڈیو میں رفیق کے ڈاکٹر کو بھی سنا جا سکتا ہے جو بتا رہے ہیں کہ غزہ کے بیشتر لوگوں کو لحمیات، نشاستہ، چکنائی، اور زندہ رہنے کے لیے دوسرے اہم غذائی اجزاء تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

مذکورہ ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا ہےکہ غزہ  کے بیشتر ہسپتالوں میں کئی بچے بقول ان کے والدین کے طبی امداد ملنے سے پہلے ہی غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس کے امدادی کارکن آخری بار 11 مارچ کو غزہ کے بعض ہسپتالوں کو ایندھن اور ادویات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق الشفاء ہسپتال پر اسرائیلی فوج کا حملہ اب چوتھے روز میں داخل ہو چکا ہے۔

ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے دکھ کے ساتھ کہا کہ غزہ کے بچے جو کچھ سہہ رہے ہیں اس پر ’تاریخ ہم سب کو جوابدہ ٹھہراے گی‘۔ انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور بڑے پیمانے پر انسانی امدادی کارروائیوں کا اپنا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا۔

جان لیوا فاقہ کشی

سوموار کو جاری کیے گئے غذائی عدم تحفظ کے تجزیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ میں گیارہ لاکھ افراد کو جان لیوا فاقہ کشی کا سامنا ہے، خصوصاً شمالی غزہ میں قحط کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ میں صحت کی سہولیات پر 410 حملے ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں ہلاکتوں، تقریباً 100 عمارتوں کو نقصان پہنچنے، اور 100 سے زیادہ ایمبولینسوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اسی طرح مقبوضہ مغربی کنارے میں ڈبلیو ایچ او نے 7 اکتوبر کے بعد صحت کی سہولتوں پر 403 حملے ریکارڈ کیے ہیں۔

خوراک بطور جنگی ہتھیار

ادھر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے ’انرا‘ کےسربراہ فلپ لازارینی نے غزہ میں انسانی امداد کی بھرپور فراہمی کی اپیل کی ہے۔

غزہ کے شمالی علاقوں  میں ’انسان کے پیداکردہ قحط‘ کی مذمت کرتے ہوئے فلپ لازارینی نے اصرار کیا کہ مسئلے کا آسان ترین حل یہ ہے کہ غزہ میں تمام زمینی راہداریوں کو کھول دیا جائے۔ ’غزہ کو خوراک سے بھرنا آسان ہے، اس رجحان (قحط) کو روکنا بھی آسان ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ یہ ہماری اجتماعی انسانیت پر ایک اجتماعی داغ ہے کہ ایسی صورتحال مصنوعی طور پر ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہی ہے۔‘

’انرا‘کے کمشنر جنرل نے اسرائیل اور حماس سے جنگ بندی پر اتفاق کرنے اور 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی زیر قیادت دہشت گردانہ حملوں کے دوران یرغمالی بنائے گئے تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کو ترجیح ہونا چاہیے لیکن اس دوران خوراک کو جنگ کا ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔