انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ کی 79 فیصد آبادی شدید بھوک کا شکار، ایف اے او

غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
© UNRWA
غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

غزہ کی 79 فیصد آبادی شدید بھوک کا شکار، ایف اے او

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ 'تباہ کن' درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں اور شمالی علاقے میں مئی تک کسی بھی وقت قحط پھیل سکتا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے بتایا ہے کہ غزہ کی تمام آبادی کو 'شدید' درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہے۔غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، وسط فروری سے اب تک غزہ کی 79 فیصد آبادی تباہ کن درجے کی بھوک کا شکار ہو چکی ہے۔ جولائی تک یہ شرح 92 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

Tweet URL

'ایف اے او' کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیتھ بیکڈول نے کہا ہے کہ غزہ میں عملاً قحط کا آغاز ہو چکا ہے۔ انسانی جانوں کو تحفظ دینے کے لیے جنگ بندی اور بڑے پیمانے پر غذائی مدد کی فوری فراہمی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انسان کی بنائی تباہی

نیویارک میں تخفیف اسلحہ پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت سے پہلے اقوام متحدہ کے  سربراہ انتونیو گوتیرش نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کو شدید بھوک اور مصائب کا سامنا ہے۔ انہوں نے آئی پی سی رپورٹ کو غزہ میں تشویشناک صورتحال کا غماض قرار دیا۔

سیکرٹری جنرل نے آئی پی سی درجہ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد غیر معمولی ہے اور اس درجہ بندی کے تحت اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں بھی سامنے نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر انسانوں کی تیارکردہ تباہی ہے اور یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ اسے روکا جا سکتا ہے، اور اس سے فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت آشکار ہوتی ہے۔ ’میں اسرائیلی حکام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پورے غزہ میں امدادی سامان کی مکمل اور بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنائیں اور عالمی برادری ہماری انسانی کوششوں کی مکمل حمایت کرے۔‘

شمالی غزہ میں فاقہ کشی

'آئی پی سی' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں اب تمام گھرانوں کو روزانہ کسی وقت فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ شمالی علاقے میں تقریباً دو تہائی لوگوں کو 30 یوم میں کم از کم 10 مرتبہ چوبیس گھنٹے کھانا میسر نہیں ہوتا۔ 

'ایف اے او' کے مطابق، دو سال سے کم عمر کے ایک تہائی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں کھانا کھلانے کے لیے بڑوں کو عموماً بھوکا رہنا پڑتا ہے۔

دوسری جانب، جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بین الاقومی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے اسرائیلی وفد بھی قطر پہنچ گیا ہے۔

الشفا ہسپتال کو خطرہ

اسرائیل کی فوج نے حماس کے جنگجوؤں کی تلاش میں شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال میں ایک مرتبہ پھر کارروائی کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ہسپتالوں کو جنگی کارروائیوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے۔ الشفا ہسپتال میں طبی کارکنوں، مریضوں اور پناہ گزین لوگوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔ 

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں کسی حد تک بحال ہونے والی طبی خدمات اسرائیل کی حالیہ کارروائی کے نتیجے میں دوبارہ معطل ہو سکتی ہیں۔

رفح پر حملہ روکنے کی اپیل

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل نے اسرائیل کی جانب سے رفح میں حملے کی تیاریوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ گنجان آبادی میں حملوں سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا خدشہ ہے جبکہ علاقے میں طبی سہولیات پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ رفح میں مقیم لوگوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔ بہت سے لوگ کمزور، بھوکے اور بیمار ہونے کے باعث دوبارہ نقل مکانی کے قابل نہیں ہیں۔ 

انہوں نے انسانیت کے نام پر اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ حملے کے بجائے امن کے لیے اقدامات کرے۔ 

مایوس کن حالات

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے خبردار کیا ہے کہ متواتر جنگ اور امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کے باعث تیزی سے بڑھتی غذائی قلت غیرمعمولی حدود کو چھو رہی ہے۔   

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ ادارے اور اس کے شراکت داروں کو ایسے حالات کا سامنا ہے جب جنگ پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کو اس کے کام سے روکنے کے بعد اس پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ حالات میں بہتری لانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہا۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک علاقے میں 31,726 افراد ہلاک اور 73,792 زخمی ہو چکے ہیں۔