انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بیلاروسی جلاوطنوں کا فی الحال واپس جانا ممکن نہیں، رپورٹ

بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں نومبر  2020 میں امن اور آزادی کے لیے ہونے والے مطاہرے کے شرکاء۔
Unsplash/Angie Bob
بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں نومبر 2020 میں امن اور آزادی کے لیے ہونے والے مطاہرے کے شرکاء۔

بیلاروسی جلاوطنوں کا فی الحال واپس جانا ممکن نہیں، رپورٹ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بیلاروس میں حقوق کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک میں سیاسی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور شہری آزادیاں سکڑتی جا رہی ہیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کی جانب سے گزشتہ برس ملک میں انسانی حقوق سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کے شہریوں کو اظہار اور اجتماع کی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے۔

Tweet URL

یہ رپورٹ 2020 کے متنازع صدارتی انتخابات کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد ملکی حالات کے بارے میں گزشتہ جائزے کا تسلسل ہے۔ بیلارس کے حکام کی جانب سے عدم تعاون کے باوجود 'او ایچ سی ایچ آر' کی جمع کردہ شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالیاں جاری ہیں۔

حزب اختلاف پر جبر

'او ایچ سی ایچ آر' میں عملی کارروائیوں اور تکنیکی تعاون سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر کرسچین سالازار وولکمین نے کہا ہے کہ یکم مئی 2020 کے بعد اظہار، میل جول اور اجتماع کی آزادی پر بہت سے رکاوٹیں عائد کر دی گئی ہیں۔ 

گزشتہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف کی کسی جماعت کو رجسٹریشن کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے آئندہ برس نئے صدارتی انتخابات کے حوالے سے خدشات نے جنم لیا ہے۔ 

2021 کے بعد منظور یا تبدیل کردہ قوانین کے ذریعے اختلافی آوازوں کو دبایا گیا ہے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نمایاں افراد، صحافیوں اور مزدور رہنماؤں کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں، اظہار اور اجتماع کی آزادی سے کام لینے والے ہزاروں افراد کو ناجائز طور سے گرفتار کیا گیا ہے اور یہ گرفتاریاں رواں سال بھی جاری ہیں۔ 

توہین آمیز سلوک و جبری گمشدگیاں

رپورٹ کے مطابق 2020 سے اب تک بیلاروس بھر میں ہزاروں لوگوں کو دوران قید ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کا سامنا ہے۔ 

بعض واقعات میں قیدیوں کو تشدد کے نتیجے میں شدید زخم آئے۔ زیر حراست لوگوں کو جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا بھی رہا۔ ادارے کو ایسی شہادتیں بھی موصول ہوئی ہیں کہ قیدیوں کے علاج معالجے میں کوتاہی برتی گئی جس سے ان کے زندگی کے حق کو خطرہ لاحق ہوا جبکہ رواں سال دو قیدی بیماری کی حالت میں انتقال کر گئے۔ 

اقوام متحدہ کے حکام نے حزب اختلاف کے نمایاں رہنماؤں کی ممکنہ جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیلارس کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔ 

بچوں کی گرفتاریاں 

'او ایچ سی ایچ آر' کو معلوم ہوا ہے کہ 2020 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد بڑی تعداد میں بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان میں 18 سال سے کم عمر کے 50 سے زیادہ بچوں کے خلاف سیاسی بنیاد پر مقدمات قائم کیے گئے جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ مہیا نہیں کیا گیا۔ 

حکام نے ایسے بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کرنے کے لیے 'سماجی طور پر خطرناک حالات' کا بہانہ بنایا۔ 

جلاوطن افراد کو خطرہ

رپورٹ کے مطابق، مئی 2020 کے بعد بیلاروس کے تقریباً تین لاکھ شہری ملک سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ حکومت نے جلاوطنی اختیار کرنے والوں کے حقوق پر کڑی پابندیاں عائد کی ہیں جن میں انہیں پاسپورٹ جاری نہ کرنے اور وطن واپسی پر گرفتار کیے جانے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 2023 میں ملک واپس آنے والے کم از کم 207 افراد کو گرفتار کیا گیا اور رواں سال بھی یہ گرفتاریاں جاری ہیں۔ 

وولکمین کا کہنا ہے کہ اس وقت جلاوطن لوگوں کے لیے بیلارس میں واپس آنا محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بین الاقوامی پناہ گزین قرار دیتے ہوئے تحفظ مہیا کریں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ بیلاروس میں ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ 'او ایچ سی ایچ آر' نے بیلاروس پر زور دیا ہے کہ وہ ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کرے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بند کرے۔

ادارے نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہےکہ وہ بیلاروس کو بین الاقوامی قانون کی پابندی پر مجبور کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائیں۔