انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پگھلتے گلیشیئروں اور بڑھتی سمندری سطح کے ساتھ سال 2023 گرم ترین سال

سمندری سطح بڑھنے سے بنگلہ دیش میں گھر زیر آب آنا معمول بنتا جا رہا ہے۔
© WFP/Sayed Asif Mahmud
سمندری سطح بڑھنے سے بنگلہ دیش میں گھر زیر آب آنا معمول بنتا جا رہا ہے۔

پگھلتے گلیشیئروں اور بڑھتی سمندری سطح کے ساتھ سال 2023 گرم ترین سال

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار، کرہ ارض کے درجہ حرارت، سمندری حدت و تیزابیت اور سطح سمندر میں اضافے، گلیشیئروں کے پگھلاؤ اور برف کی تہہ میں کمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔

شدید گرمی، خشک سالی، جنگلوں کی آگ اور منطقہ حارہ کے تیزی سے شدت اختیار کرتے طوفان لاکھوں لوگوں کے لیے تکالیف اور تباہی لائے اور ان آفات سے اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ ادارے نے یہ بات 2023 میں عالمگیر موسمیاتی صورتحال سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس رپورٹ کے اجرا پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ موسمیاتی تباہی کے حوالے سے تمام علامات واضح ہیں۔ بعض ریکارڈ ٹوٹے ہی نہیں بلکہ واضح فرق سے ٹوٹ گئے ہیں اور تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ 

ہنگامی صورتحال

'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سائنسی علم گزشتہ پانچ دہائیوں سے موجود ہے لیکن ماضی قریب تک دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ 

جنیوا میں میڈیا کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا مقصد مختصر مدتی معاشی مفادات کا حصول نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھلائی ہونا چاہیے۔عالمی موسمیاتی ادارے کی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے وہ موسمیاتی مسئلے کی ہنگامی نوعیت کے بارے میں خبردار کر رہی ہیں۔ 

متعدد اداروں کی جاری کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کردہ اس رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2023 اب تک کا گرم ترین سال تھا۔ اس دوران سطح زمین کے درجہ حرارت میں قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.45 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا۔ 

موسمیاتی ابتری

'ڈبلیو ایم او' کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی حدت میں اضافے سے کہیں بڑا مسئلہ ہے۔ سمندری حدت اور سطح میں غیرمعمولی اضافہ، گلیشیئروں کا پگھلنا اور قطب جنوبی کی برف کا ضیاع بھی اس پریشان کن منظرنامے کا حصہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی صورت میں تین بڑی گرین ہاؤس گیسوں کا ارتکاز 2022 میں ریکارڈ سطح پر پہنچا تھا جس میں 2023 کے دوران بھی اضافہ ہوتا رہا۔

گزشتہ سال 1950 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ گلیشیئروں کا بڑے پیمانے پر پگھلاؤ ہوا۔ شمالی امریکہ کے مغربی حصے اور یورپ میں اس پگھلاؤ کی شدت دیگر خطوں سے کہیں زیادہ رہی۔ یورپ میں الپائن کے پہاڑی سلسلے کی برفانی چوٹیوں پر بھی برف تیزی سے پگھلی۔ گزشتہ دو برس میں سوئزرلینڈ میں ایسے پہاڑوں پر باقی ماندہ برف کی 10 فیصد تہہ کا خاتمہ ہو گیا۔ 

گزشتہ سال قطب جنوبی (انٹارکٹکا) میں برف کی تہہ اب تک کی کم ترین سطح پر رہی۔ سابقہ ریکارڈ کے مقابلے میں گزشتہ برس اس میں 10 لاکھ مربع کلومیٹر کی کمی واقع ہوئی جو کہ فرانس اور جرمنی کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔

'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو 2023 میں عالمگیر موسمیاتی صورتحال پر رپورٹ کا اجراء کر رہی ہیں۔
UN News/Anton Uspensky
'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو 2023 میں عالمگیر موسمیاتی صورتحال پر رپورٹ کا اجراء کر رہی ہیں۔

اہم ترین مسئلہ

سیلیسٹ سائولو کا کہنا ہے کہ موسمیاتی بحران انسانیت کو درپیش اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس کا عدم مساوات کے بحران سے گہرا تعلق ہے۔ بڑھتے ہوئے غذائی عدم تحفظ، آبادی کی نقل مکانی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کی صورت میں اس کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2023 میں موسم اور موسمیاتی شدت ہی نقل مکانی، غذائی عدم تحفظ، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور طبی مسائل کی بنیادی وجوہات رہیں یا ان میں مزید بگاڑ کا سبب بنیں۔ 

مثال کے طور پر 78 ممالک میں کووڈ۔19 وبا سے پہلے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد 14 کروڑ 90 لاکھ تھی جو 2023 میں 33 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی۔ یہ وہ ممالک ہیں جو غذائی قلت کے حوالے سے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے زیرجائزہ رہے ہیں۔

امید کی کرن

'ڈبلیو ایم او' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنگین مسائل کے باوجود بہتری کی امید بھی رکھی جا سکتی ہے۔ 2023 میں قابل تجدید توانائی کے حصول کی صلاحیت میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا جو 510 گیگا واٹ تک پہنچ گئی۔ یہ دو دہائیوں کے عرصہ میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

موسمیاتی آفات کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے بروقت انتباہ کے موثر نظام کی موجودگی ضروری ہے۔ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو محدود رکھنے کے سینڈائی فریم ورک کی منظوری کے بعد مقامی سطح پر اس مقصد کے لیے حکمت عملی کی تیاری اور اس پر عملدرآمد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 

علاوہ ازیں، 2021 سے 2022 تک عالمی سطح پر موسمیاتی امور کے لیے مہیا کردہ مالی وسائل میں 2019 اور 2020 کے مقابلے میں 1.3 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا۔ تاہم یہ عالمگیر جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد ہے اور مالیاتی وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق، عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے موسمیاتی مقاصد کے لیے مختص کیے جانے والے مالی وسائل میں چھ گنا سے بھی زیادہ اضافہ کرنا ہو گا۔ اس طرح 2030 تک ان کا حجم 9 ٹریلین ڈالر ہو جائے گا جبکہ 2050 تک مزید 10 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔

بے عملی کی قیمت

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے معاملے میں بے عملی کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ اگر دنیا عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری کی حد تک رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو 2025 اور 2100 کے درمیان 1,266 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو گا۔

یہ رپورٹ کوپن ہیگن میں دنیا بھر کے وزرائے موسمیات کے اجلاس سے قبل جاری کی گئی ہے جس میں موسمیاتی اقدامات کی رفتار بڑھانے کے لیے بات چیت ہو گی۔ کاپ 28 کے بعد یہ اس موضوع پر ہونے والا پہلا بڑا عالمی اجلاس ہے۔ اس موقع پر آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی کاپ 29 میں موسمیاتی مسئلے سے نمٹنے کے لیے مالیاتی اقدامات سے متعلق معاہدے کے بارے میں بھی گفت و شنید کی جائے گی۔