انسانی کہانیاں عالمی تناظر

گرمی کی لہر سے 2050 تک دنیا کا تقریباً ہر بچہ متاثر ہوگا: یونیسف رپورٹ

یمن میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچے واٹر پمپ پر نہا کر گرمی کی شدت کم کر رہے ہیں۔
© UNICEF/Gabreez
یمن میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچے واٹر پمپ پر نہا کر گرمی کی شدت کم کر رہے ہیں۔

گرمی کی لہر سے 2050 تک دنیا کا تقریباً ہر بچہ متاثر ہوگا: یونیسف رپورٹ

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ شدید گرمی کے ادوار بہت سے ممالک کے لیے ایک ناگزیر طبی خطرہ بن چکے ہیں لیکن نئی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2050 تک یہ گرمی کرہ ارض پر واقعتاً ہر بچے کو متاثر کرے گی۔

اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ آج دنیا میں تقریباً نصف ارب بچے پہلے ہی بڑی تعداد میں شدید گرمی کے ادوار کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والوں میں ہوتا ہے۔

Tweet URL

اندازے کے مطابق اس صدی کے وسط تک دو ارب سے زیادہ بچوں کو گرمی کے ''مزید متواتر، طویل دورانیے کے اور مزید شدید'' ادوار کا سامنا ہو گا۔

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے خبردار کیا ہے کہ ''موسمیاتی بحران بچوں کے حقوق کا بحران بھی ہے اور یہ پہلے ہی بچوں کی زندگیوں اور مستقبل کو تباہ کن نقصان سے دوچار کیے دیتا ہے۔''

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سال انڈیا، یورپ اور شمالی امریکہ میں جنگلوں میں لگنے والی آگ اور گرمی کے ادوار ''بچوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی ایک اور سنگین مثال ہے''۔

بچے بہت بڑے خطرے کی زد میں ہیں

ادارے کی جانب سے 'ان کی بقیہ زندگی کا سرد ترین سال'کے عنوان سے شائع کردہ رپورٹ میں دی گئی نئی معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ انتہائی گرمی کے ادوار سے چھوٹے بچوں کو بالغوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں میں اپنے جسمانی درجہ حرارت کو منظم رکھنے کی زیادہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ بچے گرمی کی لہر کے سامنے جس قدر غیرمحفوظ ہوں گے انہیں صحت کے مسائل بشمول سانس کے دائمی امراض، دمے اور دل کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔

یونیسف نے قرار دیا ہے کہ ''دنیا کو چاہیے کہ بچوں کی صحت اور بقا کے ضامن نظام مضبوط کرنے اور انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ تیزی سے تبدیل ہوتے موسمی حالات سے لاحق مسائل سے نمٹا جا سکے۔''

اس معاملے میں یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم رہتا ہے تو آیا اوسط عالمی درجہ حرارت میں قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.7 ڈگری سیلسیئس تک اضافہ ہو گا یا اگر ان گیسوں کا اخراج بلند رہتا ہے تو آیا یہ درجہ حرارت 2.4 ڈگری سیلسیئس تک بڑھ جائے گا۔

جنوبی چاڈ کے علاقے گور میں ایک بچی اپنے سکول کے کھیل کے میدان میں پانی پیتے ہوئے۔
© UNICEF/Frank Dejongh
جنوبی چاڈ کے علاقے گور میں ایک بچی اپنے سکول کے کھیل کے میدان میں پانی پیتے ہوئے۔

حفاظت ترجیح ہے

یونیسف نے ''عالمی حدت کو محدود رکھنے اور زندگیوں کو تحفظ دینےکے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے فوری اور غیرمعمولی اقدامات'' پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کو گرمی کے ادوار کے بڑھتے ہوئے اثرات سے تحفظ فراہم کرنا تمام ممالک کی ترجیح ہونی چاہیے۔''

یونیسف کے بیان کردہ اعدووشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے شمالی خطوں میں رہنے والے بچوں کو شدید گرمی کے ادوار کی شدت میں بہت غیرمعمولی اضافے کا سامنا ہو گا جبکہ 2050 تک افریقہ اور ایشیا میں تقریباً نصف بچے مستقل طور پر 35 ڈگری سے زیادہ انتہائی بلند درجہ حرارت کا سامنا کریں گے۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف سرگرم کارکن اور یونیسف کی خیرسگالی سفیر وینیسا ناکاٹے کا کہنا ہے کہ ''اس سے بچوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے گرمی کے جتنے زیادہ متواتر، طویل اور مزید شدید اثرات کی زد میں ہوں گے ان کی صحت، تحفظ، غذائیت، تعلیم، پانی تک رسائی اور مستقبل کے روزگار پر بھی اتنے ہی زیادہ منفی اثرات پڑیں گے۔ ''

کمبوڈیا کی ایک بچی اپنے گھر میں پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کے بعد نہاتے ہوئے۔
© UNICEF/Fani Llaurado
کمبوڈیا کی ایک بچی اپنے گھر میں پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کے بعد نہاتے ہوئے۔

حالات کے مطابق ڈھلیے

ناکاٹے نے شاخِ افریقہ میں چار سال سے بارش نہ ہونے کے بعد پیدا ہونے والی خشک سالی کے تباہ کن اثرات کو واضح کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ''انسانی زندگیاں ایسے مسائل کی نذر ہو رہی ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا خود کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے سست روی سے کام کر رہی ہے اور لوگوں کو اس تبدیلی کے مطابق ڈھالنےکے لیے خاطرخواہ مدد مہیا نہیں کر رہی۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''بچے موسمیاتی تبدیلی کے بہت کم ذمہ دار ہیں اور وہی اس کی سب سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں میں افریقہ کا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ خطہ موسمیاتی بحران کے ''ہولناک ترین'' اثرات جھیل رہا ہے۔

یونیسف کا کہنا ہے کہ ''تقریباً ہر ملک کو شدید گرمی کے بدلتے ادوار کا تجربہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہر حکومت جو کچھ کرےگی اسی سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی بقا کا تعین ہو گا جن کا اس بحران کو پیدا کرنے میں سب سے کم کردار ہے۔''