ایرانی حکومت انسانی حقوق پر عالمی قوانین تسلیم کرے، جاوید رحمان
ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت کا خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک صنفی عصبیت کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حجاب قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر مہاسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاج کو پُرتشدد طریقوں سے دبانا جابرانہ اور غیر جمہوری اقدام ہے۔ ایران کی حکومت انسانی حقوق کے غیرجانبدار ماہرین کو ملک میں رسائی دے اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کرے۔
انہوں نے یہ بات نیویارک میں یو این نیوز اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال
ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جاوید رحمان کا کہنا تھا کہ ایران نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی تاحال توثیق نہیں کی۔ اسی طرح وہ تشدد کے خلاف بین الاقوامی کنونشن کا حصہ بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ایرانی حکومت اتفاق رائے سے بنائے گئے عالمی قوانین کو تسلیم کرے اور مہاسا امینی کی ہلاکت کی آزادانہ و شفاف تحقیقات ممکن بنائے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف ریاستی مشینری کی کارروائی کے نتیجے میں 48 بچوں سمیت 537 افراد مارے جا چکے ہیں۔
انہوں نے ایران میں سزائے موت پر عملدرآمد کے بڑھتے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کی اطلاعات کے مطابق ایران میں اس سال 570 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
کمیشن اور معلومات تک رسائی
جاوید رحمان نے ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال بارے حقائق جاننے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے آزادانہ کمیشن کے قیام کو ایرانی سول سوسائٹی کی ایک اہم کامیابی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت انسانی حقوق کے ماہرین کو جانبدار قرار دیتے ہوئے انہیں ویزا جاری نہیں کرتی۔ تاہم اس رکاوٹ کے باوجود ایران کے شہری براہ راست اور بالواسطہ طریقہ ہائے کار کے ذریعے انسانی حقوق کے ماہرین کو اپنے ملک کے حالات سے باخبر رکھتے ہیں۔
جاوید رحمان نے بتایا کہ وہ ایران کے حکام سے بھی رابطے میں رہتے ہیں اور اس ذریعے سے بھی انہیں وہاں کی صورتحال سے آگاہی ملتی ہے۔
نرگس محمدی کو رہا کریں
ایران کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہاسا امینی کی ہلاکت کے بعد وہاں بہت سی خواتین اور لڑکیاں جابرانہ قوانین کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ تشدد کا سہارا لے کر خواتین کو دبایا جا سکتا ہے تو یہ ممکن نہیں ۔ ایران کے حکام کو یہ بات تسلیم کرنا ہو گی اور اگر وہ نہیں کریں گے تو ان کے لیے اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
جاوید رحمان نے ایران کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی نوبیل انعام یافتہ کارکن نرگس محمدی کو رہا کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کو تسلیم کرے۔
انہوں نے کہا کہ نرگس محمدی ایران میں انسانی حقوق کی نمایاں کارکن اور صحافی ہیں جو کئی سال سے انسانی حقوق کے تحفط کی جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہیں۔ انہیں نوبیل انعام دیے جانے سے ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
عاصمہ جہانگیر مشعل راہ
جاوید رحمان سے پہلے انسانی حقوق کی نامور پاکستانی رہنما عاصمہ جہانگیر ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی اطلاع کار تھیں۔ ان کے بارے میں ایک سوال پر جاوید رحمان نے کہا کہ عاصمہ ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتی تھیں جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر عاصمہ جہانگیر کا کام ان کے لیے مشعل راہ ہے اور وہ اسے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خصوصی اطلاع کار
خصوصی اطلاع کار، غیرجانبدار ماہرین اور ورکنگ گروپ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ ہائے کار کا حصہ ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ بھی نہیں ہوتے اور کسی حکومت یا ادارے کے ماتحت کام کرنےکے بجائے انفرادی حیثیت میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔