انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امدادی و معاشی بحران کے دوران شام کی ضرورتوں میں اضافہ

شام کے شمال مشرقی شہر حساکا میں ایک بچی پینے کے پانی کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔
© UNICEF/Delil Souleiman
شام کے شمال مشرقی شہر حساکا میں ایک بچی پینے کے پانی کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔

امدادی و معاشی بحران کے دوران شام کی ضرورتوں میں اضافہ

امن اور سلامتی

سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ شام میں قریباً 12 سال پہلے شروع ہونے والے تنازعے کے بعد امدادی ضروریات انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن اور امدادی امور کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے سلامتی کونسل میں سفیروں کو بتایا ہے کہ شام میں ایک کروڑ 46 لاکھ لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔

Tweet URL

یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں 12 لاکھ زیادہ ہے اور آئندہ سال ایک کروڑ 53 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ انہوں نے شام کے لوگوں کو امید دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

جیئر پیڈرسن کا کہنا تھا کہ ''اندرون و بیرون ملک، حکومت کے زیرانتظام علاقوں اور حکومتی عملداری سے آزاد جگہوں پر شام کے لوگوں کو متواتر بڑھتے انسانی و معاشی بحران کا سامنا ہے اور خاص طور پر بے گھر افراد کے کیمپوں میں صورتحال انتہائی ہولناک ہے۔''

مایوس کن صورتحال

اقوام متحدہ کے نمائندے نے بتایا کہ وسائل کم ہو رہے ہیں اور ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں۔

بجلی اور ایندھن پہلے سے کہیں زیادہ کمیاب ہو گئے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کو صاف پانی اور طبی نگہداشت تک رسائی نہیں ہے۔

توانائی کی کمی کے باعث حکومت ملکی اداروں کو کئی روز تک بند رکھنے پر مجبور ہے جبکہ شامی پاؤنڈ کی قدر اب تک کی پست ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

اب ایسے لوگوں کو بھی مدد درکار ہے جنہیں باقاعدہ تنخواہیں ملنے کی وجہ سے امداد کی ضرورت نہیں ہوتی۔

''تباہ کن بگاڑ'' کا امکان

جیئر پیڈرسن نے خبردار کیا کہ ''یہ تاریک انسانی و معاشی صورتحال خاصی خراب ہے اور ملک میں جاری مسلح جنگ، عسکری سرگرمی میں اضافے اور تباہ کن بگاڑ کے امکان نے اس کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔''

انہوں ںے کہا کہ ''اگرچہ کسی فریق نے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں نہیں کیں تاہم ''خطرے کی حرکیات'' بدستور موجود ہیں۔''

ملک کے شمال مغرب میں حکومتی فوجوں کے اِکا دُکا فضائی حملوں کی اطلاعات ہیں۔ شمال میں ہونے والے فضائی حملے ترکی جبکہ دمشق اور جنوب مغرب میں اسرائیل سے منسوب  کیے جاتے ہیں۔

مزید برآں، بمباری، راکٹ حملے اور فوجی سرحدوں پر وقفے وقفے سے تصادم کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں جن میں تنازعے کے ''تمام فریقین''شامل ہوتے ہیں جبکہ شدت پسند گروہ آئی ایس آئی ایل (داعش) بھی متعدد سمتوں سے حملے کر رہا ہے۔

چھ نکاتی ایجنڈا

جیئر پیڈرسن نے کونسل سے اپیل کی کہ وہ ''ان پریشان کن حرکیات کو تبدیل کرے۔'' انہوں نے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کونسل سے اس کی حمایت کے لیے کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''میں آنے والے سال میں اس انتہائی مشکل تنازعے کے حل کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھوں گا۔ ہمیں شام کے لیے لوگوں کو مستقبل کے لیے امید دینا ہو گی۔''

ان کے پیش کردہ پہلے نکتے میں تناؤ کی کیفیت ختم کرنے اور قدرے امن بحال کرنے کی بات کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کونسل پر زور دیا کہ وہ شام میں ضرورت مند لوگوں کو امداد تک بلا روک و ٹوک رسائی مہیا کرنے کے لیے اپنے فریم ورک کی تجدید کرے اور اس مقصد کے لیے تمام طریقوں سے کام لے۔

انہوں نے شام کی آئینی کمیٹی کے اجلاس دوبارہ شروع کرنے اور انہیں مزید باضابطہ بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

گرفتار اور لاپتہ افراد

ان کا چوتھا نکتہ گرفتار، گمشدہ و لاپتہ افراد اور ان کی رہائی اور ان کے بارے میں معلومات کی فراہمی پر زور دینے سے متعلق ہے۔

جیئر پیڈرسن نے شام کے سیاسی فریقین اور عالمی کرداروں کو ساتھ لے کر چلنے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ''پانچواں نکتہ اعتماد قائم کرنے کے ابتدائی قدم بہ قدم اقدامات کی نشاندہی اور ان پر عملدرآمد کے لیے بات چیت کو آگے بڑھانے سے متعلق ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''اگر ایسا ہو جاتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس سے شام کے عام لوگوں کی زندگیوں پر بامعنی اثرات مرتب ہوں گے، بعض منفی حرکیات کو تبدیل کرنے اور تنازعے کے فریقین کے مابین اور سیاسی عمل میں اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔''

اپنے آخری نکتے پر بات کرتے ہوئے جیئر پیڈرسن نے شام کی سول سوسائٹی بشمول خواتین کے مشاورتی بورڈ کے ساتھ مل کر چلنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

رقا کے علاقے میں ایک خود رو کیمپ میں ایک شامی پناہ گزیں خاندان۔
© UNICEF/Delil Souleiman
رقا کے علاقے میں ایک خود رو کیمپ میں ایک شامی پناہ گزیں خاندان۔

بقا کی جدوجہد

مارٹن گرفتھس نے بے پناہ ضروریات سے نمٹنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کے خاندانوں کی بڑی اکثریت یا تو بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے یا اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔

ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کی صورت میں ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کے لیے روزانہ کھانےکا بندوبست کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ قریباً 30 لاکھ لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جنگ کے باعث شام کے لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں 20 لاکھ افراد موسم سرما کے منفی صفر درجہ حرارت میں خیموں، کیمپوں اور عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

سرحد پار امداد کی تجدید

ملک کو اس سال دوبارہ ہیضے کی وبا کا سامنا ہے جس کے 60 ہزار سے زیادہ مریض سامنے آ چکے ہیں اور ان میں 100 کی موت واقع ہو چکی ہے۔

ترکیہ سے سرحد پار شمال مغربی شام میں امداد کی فراہمی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد کی مدت محض چند ہفتوں میں ختم ہو رہی ہے۔ مارٹن گرفتھس نے یہ امداد جاری رکھنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ ''میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ امداد شمال مغرب میں لاکھوں لوگوں کی زندگی برقرار رکھنے میں مددگار ہے۔

اس قرارداد کی تجدید نہ ہوئی تو ایسے وقت میں امداد کی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔''