انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شام: حالیہ سفارتی کامیابیوں کے نتیجے میں جنگ ختم ہونی چاہیے

اس سال فروری میں آنے والے زلزلے کی تباہی کا ایک منظر۔
© UNICEF/Hasan Belal
اس سال فروری میں آنے والے زلزلے کی تباہی کا ایک منظر۔

شام: حالیہ سفارتی کامیابیوں کے نتیجے میں جنگ ختم ہونی چاہیے

امن اور سلامتی

شام میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ ملک میں 12 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کو سفارتی میدان میں حاصل ہونے والی متواتر کامیابیوں کے مماثل ہونا چاہئیے جہاں تشدد کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

شام کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن نے کونسل کو ملک میں سیاسی و امدادی حوالے سے حالیہ پیش ہائے رفت پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ "حالیہ سفارتی اقدامات کو عملی صورت دینا ضروری ہے۔"

Tweet URL

متعدد سفارتی اقدامات کی بدولت شام کی حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت جاری رکھنےکے معاملے سمیت کئی طرح کے مسائل کے حل کی جانب پیش رفت کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ مزید برآں، ان میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں علاقائی سالمیت کے حوالے سے اٹھائے گئے خدشات اور قومی مفاہمت کے لئے کام کرنا بھی شامل ہے۔

سفارتکاری

گزشتہ مہینے ماسکو نے ایران، روس اور شام کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بلایا جبکہ ترکیہ اور اومان کے وزرائے خارجہ نے مصر، عراق، اردن، سعودی عرب اور شام کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔

عرب لیگ میں شامل ممالک نے قاہرہ میں اس مسئلے پر قراردادیں منظور کیں اور عرب وزراتی رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد شام کی حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت جاری رکھنے میں مدد دینا ہے۔ اسی دوران شام کے صدر نے جدہ میں ہونے والی عرب لیگ کی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

سٹیٹس کو کا خطرہ

جیئر پیڈرسن نے کہا کہ "ان موضوعات پر مشترکہ توجہ اور بات چیت کے نکات اس معاملے میں آگے بڑھنے کا ایک حقیقی موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم مسئلے کا سفارتی حل تلاش کرنے کے خواہاں وزرائے خارجہ کے ساتھ اپنی بات چیت میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ شام کے عوام اور ایسے علاقائی و دیگر کرداروں کے لئے جوں کی توں صورتحال کے خطرات کو بھی سمجھتے ہیں جو عدم استحکام کا خاتمہ کرنے کے خواہاں ہیں۔"

انہوں ںے شامی تنازعے کے فریقین، عرب ممالک، استانا، مغربی کرداروں اور سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ اپنی متواتر بات چیت کی بنیاد پر توقع ظاہر کی ہے کہ اگر بنیادی مسائل پر قابو پانے کا مختصر پیمانے پر ہی آغاز ہو جائے تو تب بھی "نئی حرکیات" اس حوالے سے درکار ضروری رفتار فراہم کردیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ "قرارداد 2254 پر عملدرآمد کے حوالے سے معمولی سی پیش رفت کے لئے بھی اعتماد اور بہت سے مختلف کرداروں کے وسائل اور سنجیدہ اقدامات درکار ہوں گے۔"

شام کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن سلامتی کونسل کو تازہ ترین صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
شام کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن سلامتی کونسل کو تازہ ترین صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔

اعتماد سازی کی ضرورت

انہوں ںے کہا کہ اس پس منظر میں شام کے لوگ بدستور بڑے پیمانے پر تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماضی میں شام کے مہاجرین نے ملک واپسی کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن 2023 میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی تھی۔ روزگار کے مواقع کی کمی، سلامتی کی نازک صورتحال اور ناجائز قید کا خوف اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

اس طرح اعتماد کی بحالی کے اقدامات اور سیاسی عمل پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئیے۔ شام کی حکومت کو نقل مکانی کرنے والوں کے تحفظ سے متعلق ان کے خدشات کو اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے مزید باقاعدہ انداز میں دور کرنا ہے۔

اس حوالے سے اگر امدادی اداروں کو روزگار سے متعلق شام کے تمام لوگوں کے خدشات کو مزید بہتر انداز میں رفع کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی مدد کرنی ہے توعوام کے لئے زمینی حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے اور ملک بھر میں محفوظ اور پرسکون ماحول ترتیب پا سکتا ہے۔

جنگ بندی اہم

انہوں ںے غربت میں مزید اضافے کے بارے میں حالیہ اطلاعات کی بابت خبردار کرتے ہوئے کہا کہ خانہ جنگی، منشیات کی سمگلنگ، یوکرین کی جنگ اور دیگر محرکات کے مجموعی اثرات حقیقی خدشات کے حامل ہیں۔

جیئر پیڈرسن نے ملک گیر جنگ بندی کی فوری ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک میں امداد پہنچانے کی ضرورت ہے، متواتر تشددکے باعث شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔