انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شامی جنگ کے خاتمے کے لیے پائیدار سیاسی حل کی ضرروت

پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں میں رہنے والے خاندان اپنے بچوں کو بمشکل دو وقت کا کھانا دے پاتے ہیں۔
© UNICEF/Hasan Belal
پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں میں رہنے والے خاندان اپنے بچوں کو بمشکل دو وقت کا کھانا دے پاتے ہیں۔

شامی جنگ کے خاتمے کے لیے پائیدار سیاسی حل کی ضرروت

امن اور سلامتی

شام کے تنازع کو 12 سال ہونے پر اقوام متحدہ کے تین اعلیٰ عہدیداروں نے ملک میں جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن کے مطابق یہ زندگی گنوانے والے بے شمار لوگوں کو یاد رکھنے اور مزید لاکھوں افراد کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور ان کے مصائب کی یاد دہانی کا موقع ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں جبری نقل مکانی کرنا پڑی یا جنہیں ناجائز طور پر قید میں رکھا گیا، غائب کر دیا گیا یا وہ لاپتہ ہو گئے۔

ناپائیدار اور ناقابل دفاع

انہوں ںے کہا کہ ''شام کی صورتحال انتہائی غیرمستحکم ہے اور اس صورتحال کا جاری رہنا انسانیت اور منطق کے خلاف ہے۔''

مزید برآں گزشتہ مہینے آںے والے خوفناک زلزلوں کے بعد امدادی کاموں میں درپیش مسائل اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ شام کی موجودہ صورتحال ناپائیدار اور ناقابل دفاع ہے۔

'امداد پر سیاست سے پرہیز کریں'

شمالی شام اور جنوبی ترکیہ میں 6 فروری کو دو بڑے زلزلے آئے جن کے نتیجے میں دونوں ممالک میں 50,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔

شام میں زلزلوں سے تقریباً نو ملین لوگ متاثر ہوئے اور شمال مغربی علاقے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا جو حزب اختلاف کی فورسز کا آخری گڑھ ہے۔

جیئر پیڈرسن نے تمام طریقوں، امدادی وسائل کی فیاضانہ فراہمی اور پائیدار امن کے ذریعے شام کے لوگوں تک رسائی کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے ''امدادی کوششوں کو سیاست سے پاک کرنے'' پر زور دیا۔

'سیاسی حل ضروری ہے'

ان کا کہنا تھا کہ ''ہم اپنی اجتماعی کوششوں کو صرف امدادی اقدامات تک ہی محدود نہیں رکھ سکتے۔ شام تباہ حال، منقسم اور مفلس اور ایک فعال جنگ کا شکار ہے جبکہ اس کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت خطرے میں ہے۔

شام کو اس وقت امداد اور تحفظ کے حوالے سے دنیا کی ایک پیچیدہ ترین ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع سیاسی حل کے بغیر شام کے لوگوں کی تکالیف برقرار رہیں گی۔ یہ ایک ایسا حل ہونا چاہیے جس کے ذریعے شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت بحال ہو اور لوگ باوقار انداز میں زندگی گزار سکیں اور اپنا مستقبل خود تشکیل دینے کے قابل ہوں۔''

ممکنہ ''فیصلہ کن موڑ''

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ زلزلے اس سلسلے میں ''فیصلہ کن موڑ ہو سکتے ہیں'' جس کا ثبوت تمام فریقین کی جانب سے حالیہ امدادی اقدامات کی صورت میں سامنے آیا جنہوں نے عارضی طور پر ہی سہی لیکن اپنی سابقہ پوزیشن چھوڑی ہے۔''

انہوں ںے اعتماد قائم کرنے کے قدم بہ قدم اقدامات، دستوری بات چیت کی بحالی اور اسے باقاعدہ طور سے آگے بڑھانے اور ملک بھر میں جنگ بندی کے لیے کام کرنے جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں سیاسی محاذ پر بھی اسی منطق کے اطلاق کی ضرورت ہے تاکہ آگے بڑھنے کی راہ تلاش کی جا سکے۔''

ناقابل بیان نقصانات، غیرمعمولی ضروریات

دریں اثنا، اقوام متحدہ کے دو اعلیٰ سطحی امدادی عہدیداروں نے جنگ شروع ہونے کے بعد شام کے لوگوں کو درپیش رہنے والی ناقابل بیان تکالیف کا تذکرہ کیا جن میں زندگی، کاروبار، گھروں اور امید کا نقصان شامل ہے۔

اس حوالے سے شام کے لیے اقوام متحدہ کے عبوری اور امدادی رابطہ کار المصطفیٰ بن لملہ اور شام کے بحران سے متعلق علاقائی امدادی رابطہ کار محمد ہادی کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے۔

بیان میں دونوں عہدیداروں نے کہا ہے کہ ''شام کو اس وقت امداد اور تحفظ کے حوالے سے دنیا کی ایک پیچیدہ ترین ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے جہاں ملک بھر میں اس سال 15.3 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہو گی۔ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ شام میں ضرورت مندوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ایک سات سالہ بچی جنوبی شام میں واقع پناہ گزینوں کے ایک عارضی کیمپ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ سر چھپائے ہوئے۔
© UNICEF/Hasan Belal
ایک سات سالہ بچی جنوبی شام میں واقع پناہ گزینوں کے ایک عارضی کیمپ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ سر چھپائے ہوئے۔

امداد کافی نہیں

شام کو دنیا میں نقل مکانی کے سب سے بڑے بحران کا سامنا بھی ہے۔ تقریباً 6.8 ملین لوگ اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں اور بعض کو کئی مرتبہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا ہے۔ اندازے کے مطابق اتنے ہی لوگ بیرون ملک مہاجرین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے حکام نے شام بھر میں لوگوں کی مدد جاری رکھنے اور ملک میں استحکام لانے اور بحالی کی فوری کوششوں میں مدد دینے کے لیے امدادی برادری کے بھرپور عزم کو واضح کیا۔

قریباً 6.8 ملین لوگ اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں اور بعض کو کئی مرتبہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا ہے۔

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ''انسانی امداد کافی یا پائیدار نہیں ہوتی۔''

شام میں جنگ کو ختم کرنے کے لیے دیرپا اور جامع حل سے کام لینا ضروری ہے۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ شام کے لوگوں کے لیے پائیدار امن کے حصول کی جستجو جاری رکھنے کے عزم کو واضح کریں تاکہ وہ اپنی تباہ حال زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں۔

بچوں میں غذائی قلت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ شام میں جاری جنگ اور حالیہ زلزلوں کے باعث لاکھوں بچے غذائی قلت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

ادارے کا مزید کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے اب تک تقریباً 13,000 لڑکے اور لڑکیاں ہلاک ہو چکے ہیں۔

یونیسف کا اندازہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے قریباً 609,000 بچوں کی بڑھوتری متاثر ہوئی ہے۔ یہ حالت غذائیت کی شدید قلت سے جنم لیتی ہے جس سے جسم اور دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

شام میں شدید غذائی قلت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2021 سے 2022 کے درمیانی عرصہ میں انتہائی شدید غذائی قلت کا شکار چھوٹے بچوں کی تعداد تقریباً 50 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔