انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شام پر یک طرفہ پابندیاں لگانے کے مجوزہ امریکی قانون پر تشویش

شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں میں فضائی بمباری سے متاثرہ رہائشی علاقہ۔
© UNOCHA/Ali Haj Suleiman
شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں میں فضائی بمباری سے متاثرہ رہائشی علاقہ۔

شام پر یک طرفہ پابندیاں لگانے کے مجوزہ امریکی قانون پر تشویش

انسانی حقوق

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی ماہر ایلینا دوہان نے شام پر پابندیوں سے متعلق امریکی کانگریس میں زیرغور قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی منظوری سے ملک میں لوگوں کے خراب حالات مزید بگڑ جائیں گے۔

انہوں نے امریکی کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ تعاون اور مساوی خودمختاری کے اصولوں کو قائم رکھنے، زندگیوں کو تحفظ دینے اور لوگوں کی تکالیف میں کمی لانے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل کرے۔

Tweet URL

یہ مجوزہ قانون سرکاری سطح پر ایسے کسی بھی اقدام کی ممانعت کرتا ہے جس سے بشار الاسد کے زیرقیادت شامی حکومت کو تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں مدد ملتی ہو۔

ایلینا دوہان یکطرفہ تہدیدی اقدامات کے انسانی حقوق پرمنفی اثرات کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منظوری سے شام میں اہم تنصیبات کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں پر خارجی دباؤ آئے گا۔ 

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ قانون سازی شام میں انسانی امداد کی فراہمی کے عمل کو مزید پیچیدہ کر دے گی اور امدادی اداروں پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ 

پابندیوں کے سنگین اثرات

امریکہ نے 1979 سے شام پر یکطرفہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ گزشتہ دس برس کے عرصہ میں یہ پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے 2019 میں شام میں شہریوں کے تحفظ سے متعلق سیزر ایکٹ کے نفاذ سے ان پابندیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ 

ابتدائی اور ثانوی درجوں کی ان پابندیوں کے تحت شام کو مخصوص اشیا، خدمات، ٹیکنالوجی اور اطلاعات کے تبادلے کی ممانعت ہے۔ ان میں بہت سی چیزیں پانی، نکاسی آب، صفائی اور صحت (واش) کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ 

ایلینا دوہان کا کہنا ہےکہ ان پابندیوں سے ملک میں بہت سے انسانی حقوق پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا ہے کہ شام کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے بہت سے حصوں میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ نتیجتاً لوگوں کو پانی، صحت و صفائی، حرارت، بجلی، خوراک اور ادویات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ 

یکطرفہ پابندیوں اور ان پر انتہائی سختی سے عملدرآمد کے نتیجے میں تعمیرنو کے اقدامات تقریباً ناممکن ہو گئے ہیں جبکہ 6 فروری 2023 کو آنے والے زلزلے کے بعد انسانی حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین پہلے ہی شام پر پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ 

بین الاقوامی قانون کی پامالی

ایلینا دوہان نے واضح کیا ہے کہ یہ قانون امریکہ کے دائرہ اختیار سے تجاوز اور شام کی حکومت نیز دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے اسے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی کھلی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شام میں انسانی حالات مزید بگڑ جائیں گے جو معمولی حد تک فعال تنصیبات، خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی قلت کے باعث پہلے ہی بدترین ہو چکے ہیں۔ 

خصوصی اطلاع کار نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور مساوی خودمختاری، عدم مداخلت اور تعاون کے اصولوں کی مطابقت سے شام کے لوگوں کو تحفط دینے کے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

خصوصی اطلاع کار

خصوصی اطلاع کار ایلینا دوہان اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ ممالک پر یک طرفہ پابندیاں لگانے سے وہاں کے عوام کے انسانی حقوق پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔