انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیل پر غزہ میں ’نسل کشی‘ کے مقدمے کا فیصلہ جمعہ کو سنایا جائے گا

نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں عالمی عدالت انصاف غزہ پر جنوبی افریقہ بنام اسرائیل مقدمے کی سماعت کے دوران لی گئی ایک تصویر۔۔
ICJ-CIJ/ Frank van Beek
نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں عالمی عدالت انصاف غزہ پر جنوبی افریقہ بنام اسرائیل مقدمے کی سماعت کے دوران لی گئی ایک تصویر۔۔

اسرائیل پر غزہ میں ’نسل کشی‘ کے مقدمے کا فیصلہ جمعہ کو سنایا جائے گا

امن اور سلامتی

عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام میں مقدمے پر کل (جمعہ) فیصلہ سنائے گی۔

جنوبی افریقہ کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل کے اقدامات نسل کش نوعیت کے ہیں۔ ان کا ارتکاب غزہ میں فلسطینیوں کے بڑے، قومی و نسلی گروہ کو تباہ کرنے کے مخصوص ارادے سے کیا گیا ہے۔"

جنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ انسداد نسل کشی سے متعلق 1948 میں منظور کردہ اقوام متحدہ کے کنونشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر فیصلہ دے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے۔

جنوبی افریقہ کا مقدمہ

مقدمے کی سماعت کے دوران جنوبی افریقہ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی پر فضا، زمین اور سمندر سے اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہےکہ بہت سے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے۔ 

اسرائیل نے بھوک اور بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے دوچار لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی بھی روک رکھی ہے۔ متواتر بم باری کے باعث ان لوگوں تک مدد پہنچانا ممکن نہیں رہا۔

لوگوں کو ان گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں، سکولوں، مساجد، گرجا گھروں میں اور خوراک و پانی ڈھونڈنے کی کوشش میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ انخلا کے احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہیں تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے، اگر وہ اسرائیل کی طے کردہ محفوظ راہداریوں کے ذریعے نقل مکانی کریں تو تب بھی ان کے لیے سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔

جنوبی افریقہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی عسکری کارروائی کے پہلے ہفتے میں 6,000 بم برسائے گئے۔ اس میں غزہ کے جنوبی علاقوں میں کم از کم 200 مواقعوں پر 2,000 پاؤنڈ سے زیادہ وزنی بم بھی گرائے گئے جبکہ ان جگہوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے ہی حملے شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی کیے گئے۔

اسرائیل کا موقف

اسرائیل کے وکلا نے عدالت کے روبرو جو موقف اختیار کیا اس میں جنگ کے حوالے سے خاص طور پر اپنے دفاع کے حق کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ فلسطین کے لوگوں کے خلاف نہیں۔ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اپنا اور اپنے شہریوں کا دفاع کرنا اس کا حق ہے۔ اسرائیل کی جانب اس حق کو استعمال کرنے میں نسل کشی کا کوئی ارادہ شامل نہیں۔

اسرائیل کی قانونی ٹیم نے جنوبی افریقہ پر الزام عائد کیا کہ وہ نسل کشی کی اصطلاح کو اس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ یہ اصطلاح حماس کے اقدامات پر صادق آتی ہے جو فلسطین کو یہودیوں سے پاک کرنے کی بات کرتی ہے۔ شہری علاقوں میں ہونے والی ایسی جنگوں کا ہمیشہ نتیجہ شہریوں کی المناک اموات، نقصان اور تباہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ غزہ میں یہ سب کچھ اسی لیے دیکھنے کو ملا کہ حماس یہی کچھ چاہتی تھی۔

اسرائیل کے وکلا نے اصرار کیا کہ ان کے ملک نے نسل کشی کے کسی ارادے کے بجائے صرف عسکری اہداف کو ہی نشانہ بنایا اور اس ضمن میں بین الاقوامی انسانی قانون کو مدنظر رکھا ہے۔ 

اسرائیل کی جانب سے عدالت کو جنوبی افریقہ کی جانب سے کی گئی اس درخواست کی بھی مخالفت کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ میں اپنی عسکری کارروائیاں فوری طور پر معطل کرے۔

عالمی عدالت انصاف کا مقصد کیا ہے؟

'آئی سی جے' نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے شہر دی ہیگ میں واقع امن محل میں قائم ہے۔ اس کا قیام 1945 میں ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے عمل میں آیا تھا۔ عدالت ایسے قانونی سوالات پر مشاورتی رائے بھی دیتی ہے جو اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی جانب سے اسے بھیجے جاتے ہیں۔ 

اسے عام طور پر 'عالمی عدالت' بھی کہا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے۔ دیگر میں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی)، تولیتی کونسل اور سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ یہ عدالت ان میں واحد ادارہ ہے جو نیویارک سے باہر قائم ہے۔

یہ عدالت 15 ججوں پر مشتمل ہے جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نو سالہ مدت کے لیے منتخب کرتی ہیں۔ ان میں ہر تین سال کے بعد پانچ ججوں کا انتخاب ہوتا ہے جن کے متواتر منتخب ہونے پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ جج اپنی حکومتوں کی نمائندگی کرنے کے بجائے آزادانہ حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ کسی ملک سے صرف ایک جج ہی منتخب ہو سکتا ہے۔