انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان کے موسمیاتی و معاشی مسائل کا تقاضا فوری سرمایہ کاری، انکٹاڈ

پاکستان کی 60 فیصد غیرملکی برآمدات ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
پاکستان کی 60 فیصد غیرملکی برآمدات ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔

پاکستان کے موسمیاتی و معاشی مسائل کا تقاضا فوری سرمایہ کاری، انکٹاڈ

معاشی ترقی

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے کڑے اثرات اور سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر فوری سرمایہ کاری اور صنعتی شعبے کو ماحول دوست بنانے کی ضرورت ہے۔

بیرونی و اندرونی قرضوں کے بھاری بوجھ اور ساختیاتی مسائل کے باعث پاکستان کی معیشت پہلے ہی عدم استحکام سے دوچار تھی۔ کووڈ۔19، اس کے بعد یوکرین کی جنگ کے معاشی اثرات اور پھر 2022 کے سیلاب نے ملک کی اقتصادی مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان کے مسائل یہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا شمار طویل مدتی موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین خطرات کا سامنا کرنے والے پہلے دس ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ یہ ملک تواتر سے شدید گرمی، خشک سالی، شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بین الحکومتی ادارے 'کانفرنس برائے تجارت و ترقی' (یو این سی ٹی اے ڈی) نے صنعت، زراعت اور نقل و حمل کے شعبوں میں ماحول دوست اقدامات کے ساتھ پائیدار سرمایہ کاری کو پاکستان کے ان مسائل کا حل قرار دیا ہے۔

اس حوالے سے ادارے نے پاکستان سمیت ایشیا کے چار بڑے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس سے انہیں پائیدار ترقی کے اہداف تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔صنعتی سرگرمیوں کو ماحول دوست بنانے کے اس منصوبے میں پاکستان کے علاوہ ملائشیا، قازقستان اور ترکی کو بھی مدد فراہم کی جانا ہے۔ 

اس منصوبے کے تحت ان ممالک کو مالی مدد مہیا کرنے کے ساتھ قومی سطح پر بہتر پالیسیوں کے لیے مربوط حکمت عملی کی تیاری، ممالک کے مابین ان پالیسیوں کے اشتراک اور علاقائی سطح پر معاشی تعاون سے کام لیا جائے گا۔ جنوبی دنیا کے مابین علم اور مہارتوں کے تبادلے میں سہولت دینا اور ماحول دوست صنعت کاری کے حوالے سے چین کے تجربات سے سیکھنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔

سستی اور کم وقت میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے عمل سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
سستی اور کم وقت میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے عمل سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے معاشی و موسمیاتی مسائل

پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 1,596 ڈالر ہے۔ عالمی بینک اس آمدنی کو کم اور کم۔متوسط درجے کے درمیان شمار کرتا ہے۔  2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو غرقاب کر دیا تھا۔ اس آفت کے باعث 30 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا معاشی نقصان ہوا جو ملک کے جی ڈی پی کے 8 فیصد حصے کے برابر تھا۔

کووڈ۔19 وبا کے باعث پہلے ہی دباؤ کا شکار معیشت کو اس ماحولیاتی آفت نے تباہ کن نقصان پہنچایا۔ نتیجتاً ملکی قرضے میں بھی بھاری اضافہ ہو گیا۔ 2015 میں یہ قرضہ 65 ارب ڈالر تھا جو 2023 کے اوائل میں 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو کہ جی ڈی پی کے 40 فیصد کے مساوی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑا۔

اگرچہ دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں میں پاکستان کا حصہ محض 0.93 فیصد ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے کڑے اثرات کا سامنا کرنے والے 185 ممالک میں اس کا درجہ 150 ہے۔ (نچلے درجوں میں ایسے ممالک آتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے خطرناک حد تک متاثر ہو رہے ہیں)۔

کپاس اور اس سے تیارکردہ مصنوعات پاکستان کی معیشت کا سب سے اہم حصہ ہیں۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
کپاس اور اس سے تیارکردہ مصنوعات پاکستان کی معیشت کا سب سے اہم حصہ ہیں۔

'درست مدد' کی فراہمی

پاکستان کے پاس ان مسائل پر قابو پانے کے لیے درکار مالی وسائل، پالیسی اور ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ 'یو این سی ٹی اے ڈی' کی اعلیٰ سطحی ماہر معاشیات گُل اُنال کا کہنا ہے کہ ملک میں سرکاری و نجی مالیاتی ذرائع کو مضبوط بنانا اور انہیں درست مدد کی فراہمی بہت ضروری ہے۔

انہوں نے پاکستان کے لیے مضبوط بین الاقوامی مدد کی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک کو موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان اور تباہی کے ازالے کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے علاوہ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ جیسے کثیر فریقی شراکت داروں سے مالی معاونت کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

پاکستان میں صنعتی شعبے کی 40 فیصد افرادی قوت ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
پاکستان میں صنعتی شعبے کی 40 فیصد افرادی قوت ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔

کپڑا سازی کی صنعت اور ماحولیاتی ذمہ داری

پاکستان میں صنعتی شعبے کی 40 فیصد افرادی قوت کپڑا سازی کی صنعت سے وابستہ ہے۔ ملک کی 60 فیصد برآمدات کا تعلق بھی اسی صنعت سے ہے۔ تاہم یہ شعبہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان میں صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی میں 20 فیصد حصہ اسی شعبے کا ہے۔ سستی اور کم وقت میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے عمل سے ناصرف گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے بلکہ صنعتی فضلے کی مقدار میں بھی اضافہ ہو ہے۔ 

'یو این سی ٹی اے ڈی' کے مطابق اس صنعت کو شمسی، ہوائی اور پن بجلی جیسے توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے نئے طریقے وضع کرنے اور اس حوالے سے ہر سطح پر آگاہی اور تعلیم و تربیت میں اضافہ کرنا بھی اہم ہے۔ اس طرح کپڑا سازی کی صنعت کو ماحولیاتی اعتبار سے مزید ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری اور جدت کے فقدان کے باعث زرعی شعبے کی استعداد متاثر ہو رہی ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری اور جدت کے فقدان کے باعث زرعی شعبے کی استعداد متاثر ہو رہی ہے۔

زرعی شعبے کی حیاتِ نو

پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ ملک کی افرادی قوت کا تقریباً 37 فیصد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ ہی کپاس اور ایسا دیگر خام مال پیدا کرتا ہے جس سے ملک میں کپڑے کی صنعت چلتی ہے۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر زرعی سرگرمیوں اور جدت کے فقدان کے باعث اس شعبے کی استعداد ناکافی ہے۔ اس کا بالواسطہ نتیجہ غذائی عدم تحفظ، دیہی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ کسانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان بنانے سے ان کی استعداد اور پیداوار میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مالی وسائل تک بہتر رسائی کی بدولت کاشت کاروں کے لیے بڑے پیمانے پر زرعی سرگرمیاں ممکن ہو سکیں گی اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف خود کو بہتر طور سے تیار کر سکیں گے۔

صنعتی شعبے کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
صنعتی شعبے کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔

ماحول دوست نقل و حمل

پاکستان کے جی ڈی پی میں نقل و حمل کے شعبے کا حصہ 10 فیصد ہے۔ تاہم اس شعبے کو نجی گاڑیوں اور کم کاربن خارج کرنے والے ایندھن کی جانب سست رفتار منتقلی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ناکافی شہری منصوبہ بندی کے باعث لوگوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ نجی گاڑیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ 

نقل و حمل کے موثر نظام کی بنیاد پر بہتر شہری منصوبہ بندی میں پبلک ٹرانسپورٹ، سائیکل سواری اور پیدل چلنے کی حوصلہ افزائی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری کے عمل میں بہتری درکار ہے۔ اس مقصد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے معاملے میں کاربن ٹیکس پر عملدرآمد اور اندرون ملک کاربن مارکیٹ تخلیق کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔

2024 کے اوائل میں 'یو این سی ٹی اے ڈی' ایک جائزے کے نتائج جاری کرے گا جس میں ان تینوں شعبوں کو ماحول دوست بنانے کے لیے اہم سفارشات شامل ہوں گی۔ اس جائزے کے ابتدائی نتائج پر اکتوبر 2023 میں اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بات چیت کی گئی تھی جس میں سرکاری حکام، صنعتی شعبے اور مالیاتی اداروں کے نمائندوں اور محققین نے شرکت کی۔