انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان میں مزید 15 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا امکان

پاکستان کی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے رسمی شعبے میں ملازمتیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔
Muhammad Faisal
پاکستان کی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے رسمی شعبے میں ملازمتیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں مزید 15 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا امکان

معاشی ترقی

کووڈ۔19 وبا، 2022 کے سیلاب اور حالیہ اقتصادی بحران کے باعث پاکستان میں افرادی قوت کے شعبے کو ناقابل برداشت مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث رواں سال ملک میں بے روزگار لوگوں کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

معاشی گراوٹ اور مہنگائی نے شہریوں اور کاروباروں کے لیے شدید مشکلات کھڑی کر دی ہیں جن کے باعث اچھی اجرت والے روزگار عام کرنےکی جانب کئی دہائیوں کی محنت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی ایک حالیہ رپورٹ ’پاکستان: حکومتی کفایت شعاری کے ماحول میں روزگار کے مواقعوں کا جائزہ‘ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال ملک میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جو 2021 میں 6.2 فیصد تھی۔

حکومتی کفایت شعاری کا مطلب سرکاری اخراجات میں کمی لانا ہوتا ہے جن میں صارفین کو بجلی، گیس، اور تیل کی قیمتوں میں دی جانے والی رعایت پر اٹھنے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح زرعی و صنعتی شعبے کو پیداواری مداخل کی خرید پر دی جانے والی رعایتیں اور ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ کم کرنا یا واپس لے لینا بھی حکومتی کفایت شعاری کے زمرے میں آتے ہیں۔

'آئی ایل او' نے نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کی شرائط کے تحت حکومت نے جو کفایتی اقدامات اٹھائے ہیں ان سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے لوگوں کی قوت خرید تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ غربت میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

آئی ایل او کے مطابق گزشتہ سال کے طوفانی سیلاب نے پاکستان کے پہلے سے موجود معاشی مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔
Muhammad Faisal
آئی ایل او کے مطابق گزشتہ سال کے طوفانی سیلاب نے پاکستان کے پہلے سے موجود معاشی مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

پاکستان کے معاشی مسائل

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی بہت سے بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا تھا جن میں کووڈ۔19 وبا، یوکرین میں روس کی جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث 2022 میں آنے والے سیلاب جیسی تباہ کن قدرتی آفت نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ صرف سیلاب کے نتیجے میں ہونے والا مجموعی معاشی نقصان 15 ارب ڈالر ہے۔

ان حالات میں معیار زندگی پستی کا شکار ہے اور افرادی قوت کی طلب بھی کم ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ 2023 میں پاکستان کے حقیقی جی ڈی پی میں ترقی کی شرح منفی 0.5 فیصد رہے گی۔ رواں سال مہنگائی کی شرح 29.6 فیصد تک پہنچ جائے گی جو 2022 میں 12.1 فیصد تھی جبکہ 2024 میں بھی یہ شرح 25 فیصد سے نیچے آنے کا امکان نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی کے لیے امدادی قیمت کا خاتمہ بھی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے آنے والی کمی اور معیشت پر اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر تیزی سے کھوئی ہے۔ جولائی 2021 سے جولائی 2023 کے درمیان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 74.4 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔

اپریل 2022 میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 بلین ڈالر تھے جو اپریل 2023 میں کم ہو کر 4.5 ارب ڈالر رہ گئے۔ اس کے بعد ان میں اضافہ ہوا جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جانے کےبعد وسط جولائی 2023 میں ان کی مقدار 8.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں مجموعی مصارف میں سے نصف قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے اور ان میں ترقیاتی اخراجات کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگرچہ وفاقی بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کا مالیاتی نظام دوبارہ درست راہ پر گامزن ہو جائے گا تاہم حکومت کی نئی معاشی پالیسیوں سے عام آدمی کی مالی حالت اور بھی خراب ہو جائے گی۔

معیشت کے رسمی شعبوں میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگ ذاتی کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔
Muhammad Faisal
معیشت کے رسمی شعبوں میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگ ذاتی کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔

کفایتی اقدامات کے افرادی قوت پر اثرات 

جولائی 2023 میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے مختصر مدتی اہتمام کے تحت 3 ارب امریکی ڈالر قرض لیا جس کی فراہمی پاکستان کی جانب سے مالی سال 2024 میں محصولات بڑھانے اور اخراجات گھٹانے کے وعدوں کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔

عالمی مالیاتی ادارے نے ملک کو دی جانے والی حالیہ مالی مدد کے لیے جن اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے کہا ہے وہ معیشت کے استحکام اور پائیدار و محتاط مالیاتی انتظام کے ذریعے طویل مدتی ترقی کی بنیاد ڈالنے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم ایسے اقدامات کے مختصر مدتی نتائج ملک بھر کے گھرانوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گے اور سماجی مصارف پر پڑنے والے اثرات سے افرادی قوت کے شعبے میں مزید گراوٹ آئے گی۔

حکومتی محصولات میں اضافہ کرنے کی پالیسیوں کا براہ راست اثر کاروبار کی لاگت پر پڑ رہا ہے جس سے سرمایہ کاری اور روزگار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے، انکم ٹیکس سے آمدنی بڑھانے اور کھادوں پر سیلز ٹیکس کے استثنا کو ختم کرنے یا اس میں کمی لانے جیسے اقدامات سے پیداکاروں کے اخراجات بڑھ جائیں گے، جو وہ اشیا کی قیمتیں بڑھا کر صارفین کو منتقل کر دیں گے۔

پاکستان میں وفاق کے زیرملکیت کاروباری ادارے جنوبی ایشیا میں سب سے کم منافع بخش ہیں اور مالی سال 2021 میں ان کا مجموعی خسارہ ملکی جی ڈی پی کے 3.1 فیصد کے برابر تھا۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت اس شعبے میں اصلاحات لانا چاہتا ہے جس کا ایک نتیجہ ان اداروں میں بڑے پیمانے پر ملازمتوں کےخاتمے کی صورت میں نکلنے کا امکان ہے۔

آئی ایل او کے مطابق رواں سال پاکستان میں بے روزگار خواتین کی تعداد میں اضافہ سال 2021 کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
Muhammad Faisal
آئی ایل او کے مطابق رواں سال پاکستان میں بے روزگار خواتین کی تعداد میں اضافہ سال 2021 کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

خواتین میں بے روزگاری

بہت سے بحرانوں کا تسلسل ملکی آبادی میں برسرروزگار افراد کی شرح میں متواتر کمی لا رہا ہے۔ اگرچہ کووڈ۔19 وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد روزگار کے مواقع بحال ہونے لگے تھے لیکن 2022 کے سیلاب اور موجودہ معاشی بحران نے ان امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔ رواں سال ملکی آبادی میں برسرروزگار افراد کی شرح 47.6 فیصد ہے جو 2020 کے علاوہ کئی دہائیوں کی کم ترین سطح ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان میں مالی سال 2023 اور 2024 کے دوران بے روزگاری کی شرح میں بالترتیب 8.5 اور 8.2 فیصد اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس شرح کے مطابق بے روزگار اور کام کی تلاش میں سرگرداں افراد کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جو 2021 کے مقابلے میں 15 لاکھ زیادہ ہو گی۔ ایسی صورت میں سابقہ اندازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس برس خواتین میں بے روزگاری کی شرح 11.1 فیصد رہے گی جو کہ 2021 کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ہے۔ 

حکومت معاشی بحران میں لوگوں کی آمدنی میں کمی کو پورا کرنے  سے قاصر ہے، نتیجتاً ملک میں غربت کی شرح بڑھ کر 37.2 فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور اس طرح مزید 30 لاکھ لوگ غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ غربت میں اضافے سے لوگوں کی غذائیت، معیاری تعلیم اور طبی خدمات تک رسائی میں کمی واقع ہوتی ہے اور یہ عمل کسی بھی ملک میں طویل مدتی ترقی کے امکانات کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور پاکستان کو اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔

قطر کی ایک زیر تعمیر عمارت پر غیر ملکی کارکن کام کر رہے ہیں۔
© ILO/Apex Image
قطر کی ایک زیر تعمیر عمارت پر غیر ملکی کارکن کام کر رہے ہیں۔

کارکن بیرون ملک ہجرت پر مجبور

ملک کو درپیش معاشی مسائل کا براہ راست اثر افرادی قوت کی منڈی پر پڑے گا۔ رسمی شعبے میں نوکریاں تیزی سے کم ہو رہی ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد غیررسمی شعبے میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ غیررسمی کارکنوں میں اپنا کام یا کاروبار کرنے والے لوگ اور غیررجسٹرڈ اور رجسٹرڈ کاروباری اداروں میں ماہانہ یا روزانہ اجرت پر کام کرنے والے لوگ شامل ہیں جنہیں عام طور پر بیمار ہونے کی صورت میں بھی تنخواہ کے ساتھ رخصت نہیں ملتی۔ 

معاشی ابتری اور اس کے نتیجے میں افرادی قوت کے مسائل کا ایک اور نتیجہ بیرون ملک ہجرت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس وقت پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بیرون ملک روزگار کے مواقع ڈھونڈ رہی ہے۔ ملک میں معاشی حوالے سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے نتیجے میں مہاجرت کے خطرناک اور غیررسمی راستوں سے بیرون ملک قسمت آزمائی کا رحجان بڑھ گیا ہے۔

پاکستان میں رواں سال مہنگائی کی شرح 29.6 فیصد تک پہنچ جائے گی جو 2022 میں 12.1 فیصد تھی۔
© FAO/Asif Hassan
پاکستان میں رواں سال مہنگائی کی شرح 29.6 فیصد تک پہنچ جائے گی جو 2022 میں 12.1 فیصد تھی۔

بہتری کیسے ممکن؟

معاشی بحران سے متاثرہ کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ میں اضافے اور متاثرہ کاروباروں کو محصولات میں رعایت دینے جیسے اقدامات سے عام طبقے کے حالات میں بہتری لانا اس لیے ممکن نہیں کہ حکومت کے خزانے خالی ہیں۔ غربت اور مہنگائی کی بلند شرح کو دیکھتے ہوئے افرادی قوت کی منڈی کی بحالی تو درکنار حکومت کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا بھی آسان نہیں رہا۔ 

آئی ایل او نے اپنی رپورٹ میں افرادی قوت کی بہتری خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز دی ہیں:

  •  صوبائی سطح پر معاشی بحالی کی مربوط مشمولہ حکمت عملی بنانا اور اس پر تیزرفتار عملدرآمد۔
  • ملازمتوں اور سماجی تحفظ کے پروگراموں پر موجودہ سرکاری اخراجات کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی بدحالی کا شکار افراد کو تحفظ دینے کے مخصوص اقدامات میں مزید بہتری لانا۔
  • معاشی بحران سے بری طرح متاثر ہونے والے سماجی گروہوں اور شعبوں خصوصاً محنت کشوں اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباروں کی مدد میں اضافے کے لیے شراکتوں کو فروغ دینا
  • افرادی قوت کے شعبے میں موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے میں مددگار پروگرام شروع کرنا۔