انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دس ہفتوں سے غزہ بچوں کے لیے دوزخ بنا ہوا ہے، یونیسف

غزہ کے علاقے رفع میں بچے بمباری میں تباہ ہونے والے اپنے گھروں کو دیکھ رہے ہیں۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کے علاقے رفع میں بچے بمباری میں تباہ ہونے والے اپنے گھروں کو دیکھ رہے ہیں۔

دس ہفتوں سے غزہ بچوں کے لیے دوزخ بنا ہوا ہے، یونیسف

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ بچوں کے لیے دنیا کی خطرناک ترین جگہ بن چکا ہے۔ جنگ بندی عمل میں نہ آئی تو بیماریوں کے نتیجے میں بچوں کا جانی نقصان بم باری سے ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کر سکتا ہے۔

خوراک، پانی، پناہ اور نکاسی آب کی سہولت کے فقدان سے بچوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔ انہیں متواتر فضائی حملوں کا سامنا ہے جس سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں۔

Tweet URL

حالیہ دنوں غزہ سے واپس آنے والے یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ ایک زخمی بچے کے والد نے انہیں بتایا کہ وہ لوگ کڑے مصائب جھیل رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آیا وہ زندہ بھی بچیں گے یا نہیں۔

علاقے میں امدادی مقاصد کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل انہوں نے جنیوا میں صحافیوں کو غزہ کے بچوں کو درپیش حالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں ہر بچہ 10 ہفتوں سے جہنم جیسے حالات کا شکار ہے اور کسی کو بھی پناہ میسر نہیں۔

غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک 19,400 فلسطینی ہلاک اور 52,000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جن میں 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق غزہ کے 36 ہسپتالوں میں صرف آٹھ فعال ہیں جن میں طبی خدمات کی جزوی طور پر فراہمی ہی ممکن ہے۔ 

ناقابل یقین حالات

'ڈبلیو ایچ او' کی مرکزی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس کا کہنا ہے کہ غزہ میں ادارے کے عملے نے بتایا ہے کہ ہسپتالوں میں ہنگامی علاج کے شعبوں میں گزرنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ ہسپتال کے فرش زخمیوں اور مریضوں سے بھرے ہیں جنہیں شدید تکالیف کا سامنا ہے اور وہ خوراک اور پانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 

انہوں نے اس صورتحال کو غیرانسانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ناقابل یقین طور سے دنیا یہ سب کچھ ہونے دے رہی ہے۔

جیمز ایلڈر نے بتایا کہ غزہ کے دورے میں انہوں نے بہت سے ایسے بچوں کو دیکھا جو اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو چکے تھے۔ علاقے میں تقریباً 1,000 بچے اپنی ایک یا دونوں ٹانگیں کھو چکے ہیں۔ 

ہسپتال پر بمباری 

جنوبی غزہ میں خان یونس کا النصر ہسپتال دو مرتبہ بمباری کی زد میں آیا ہے۔ اس ہسپتال میں ناصرف بڑی تعداد میں زخمی بچے زیرعلاج ہیں بلکہ سیکڑوں خواتین اور بچوں نے تحفظ کی خاطر بھی اس میں پناہ لے رکھی ہے۔اپنے عزیزوں کو کھو دینے والے زخمی بچوں کو بار بار ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑتا ہے۔ انہیں پناہ گاہوں میں بھی تحفظ میسر نہیں اور وہ نام نہاد 'محفوظ علاقوں' میں بھی غیرمحفوظ ہیں۔

7 اکتوبر کے بعد غزہ کی تقریباً 22 لاکھ آبادی میں سے 19 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔

جیمز ایلڈر نے واضح کیا کہ اسرائیل کی جانب سے یکطرفہ طور پر محفوظ قرار دیے گئے علاقوں میں خوراک، پانی، ادویات اور تحفظ جیسی بنیادی ضروریات کا فقدان ہے۔ 

یہ چھوٹے سے خشک میدانی علاقے، سڑکوں کے کنارے کھلی جگہیں یا ادھوری عمارتیں ہیں۔ ان جگہوں پر سردی اور بارش سے بچنے اور نکاسی آب کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ محاصرے جیسے موجودہ حالات میں موزوں تعداد میں ایسی جگہوں کی فراہمی ممکن ہی نہیں ہے۔

غزہ کا ایک گھرانہ اپنے گھر کے ملبے پہ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔
© WFP/Ali Jadallah
غزہ کا ایک گھرانہ اپنے گھر کے ملبے پہ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔

غذائی قلت اور اسہال

یونیسف کے ترجمان نے بتایا کہ غزہ میں اوسطاً 700 افراد کے لیے ایک بیت الخلا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ بچے اسہال میں مبتلا ہیں اور بڑھتی ہوئی غذائی قلت ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔

دو سال سے کم عمر کے ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ بچوں کو ماؤں کا دودھ اور قلیل مغذی خوراک میسر نہیں۔ 

واحد راستہ ’جنگ بندی‘

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں آنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد جنگ سے پہلے کی اوسط سے بہت کم ہے۔ 7 اکتوبر سے پہلے روزانہ 500 ٹرک علاقے میں آ رہے تھے۔اتوار کو رفح کی سرحد سے 102 ٹرک امدادی سامان اور چار ٹینکر ایندھن لے کر غزہ پہنچے جبکہ 79 ٹرک اسرائیل کے ساتھ کیریم شالوم کی سرحدی گزرگاہ سے آئے۔

مارگریٹ ہیرس نے بتایا کہ غزہ میں جاری لڑائی اور سڑکوں کو ہونے والے بھاری نقصان کے باعث اس امداد کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچانا آسان نہیں۔ انسانی بنیادوں پر فوری اور طویل مدتی جنگ بندی اور ضروری امداد کی فوری فراہمی ہی بچوں کی بم باری اور بیماریوں سے اموات کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ مدد کی فراہمی غزہ کے بچوں کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ ہے اور اس امداد کی فراہمی کی شرائط پوری نہیں کی جا رہیں۔