انسانی کہانیاں عالمی تناظر
عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام بھی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔

کاپ28: ساٹھ ممالک کا عملِ تبرید میں گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کا عہد

© Unsplash/Sergei A
عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام بھی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔

کاپ28: ساٹھ ممالک کا عملِ تبرید میں گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کا عہد

موسم اور ماحول

'کاپ 28' میں 60 سے زیادہ ممالک نے ماحول اور اشیا کو ٹھنڈا رکھنے کے آلات کی تیاری اور ان کے استعمال سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں کمی لانے کا وعدہ کیا ہے۔

بڑھتے درجہ حرارت کے ساتھ ایئر کنڈیشنر اور ماحول کو ٹھنڈا رکھنے والے دیگر آلات کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ 'کاپ 28' کے دوران اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے آلات کی تیاری اور ان کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کیسے روکا جا سکتا ہے۔

Tweet URL

'کاپ' میں ممالک کی جانب سے کیے گئے اس وعدے کی بدولت شدید گرمی سے بچاؤ کی سہولتوں تک رسائی میں اضافہ ہو گا، بجلی پیدا کرنے کے ذرائع پر دباؤ میں کمی آئے گی اور کھربوں ڈالر کی بچت ممکن ہو گی۔

'ٹھنڈ' کی قیمت

ماحول ٹھنڈا رکھنے کے آلات سے لوگوں کو سخت گرمی میں راحت میسر آتی ہے اور عالمگیر غذائی تحفظ اور ویکسین کی ترسیل کے نظام میں بھی ان آلات کی خاص اہمیت ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو ماحول ٹھنڈا رکھنے کے ذرائع تک رسائی نہیں ہے۔ اسی سبب سے ان لوگوں کو شدید گرمی سے متاثر ہونے کا سنگین خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ایسی بیشتر آبادی کا تعلق براعظم افریقہ اور ایشیا سے ہے۔

علاوہ ازیں، دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی سال میں 20 سے زیادہ یوم تک گرمی کی مہلک لہروں کا سامنا کرتی ہے۔

تاہم ٹھنڈ پیدا کرنے کے لیے ایئر کنڈیشننگ جیسے روایتی طریقہ کار موسمیاتی تبدیلی کے بڑے محرک بھی ہیں۔ دنیا بھر سے گرین ہاؤس گیسوں کے سات فیصد اخراج کی ذمہ دار یہی صنعت ہے۔ اگر حالات میں بہتری نہ لائی گئی تو 2050 تک ناصرف ان سہولیات کی طلب تین گنا بڑھ جائے گی بلکہ ان سے لاحق موسمیاتی خدشات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ 

توانائی کا اسراف

ہم اپنے ماحول کو ٹھنڈا رکھنےکی جتنی کوشش کرتے ہیں، کرہ ارض کی گرمی اتنا ہی بڑھ جاتی ہے۔ بجلی کی مجموعی کھپت میں ماحول اور اشیا کو ٹھنڈا رکھنے کے آلات کا حصہ 20 فیصد ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو 2050 تک اس میں دو گنا اضافہ متوقع ہے۔

آج ایئر کنڈیشنر (اے سی) اور ریفریجریٹر جیسے آلات بڑی مقدار میں بجلی استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر ان میں  'ریفریجرنٹ' کیمیائی مادوں کا استعمال ہوتا ہے جو عالمی حدت کو بڑھاتے ہیں۔ 

'یو این ای پی' کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے آلات میں بجلی کے استعمال کو کم کرنے کے نتیجے میں 2050 تک اس شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 60 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ 

'کاپ 28' میں اس رپورٹ کے اجرا پر 'یو این ای پی' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ ماحول اور اشیا کو ٹھنڈا رکھنے کے آلات بنانے والا شعبہ سبھی کو بڑھتی ہوئی حدت سے تحفظ فراہم کرے۔ اسے کرہ ارض کی گرمی میں اضافہ کیے بغیر خوراک کے معیار و تحفظ، ویکسین کی محفوظ ترسیل اور معیشتوں کی ترقی کو برقرار رکھنا ہو گا۔

'ٹھنڈک کا عالمی عہد'

یہ رپورٹ 'ٹھنڈک کے عالمی عہد' کے تعاون سے جاری کی گئی ہے جو 'کاپ 28' کے میزبان متحدہ عرب امارات اور 'یو این ای پی' کے زیرقیادت 'کول کولیشن' کا مشترکہ اقدام ہے۔ 

اس میں انسولیشن، قدرتی سائے، ہوا کے انتظام، حدت کو پلٹانے والی سطحوں، توانائی کی اعلیٰ استعداد اور ہائیڈرو فلورو کاربن ریفریجرنٹ کے استعمال میں بتدریج کمی لانے کو کہا گیا ہے۔ یہ تمام اقدامات عالمی حدت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیے بغیر اشیا اور ماحول کو ٹھنڈا رکھنے میں مددگار ہیں۔

رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے 2050 تک ماحول اور اشیا کو ٹھنڈا رکھنے کے آلات کی تیاری اور ان کے استعمال سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں 3.8 ارب ٹن کمی لائی جا سکے گی۔

اس طرح: 

  • 2050 تک مزید 3.5 ارب لوگوں کو ریفریجریٹر، ایئرکنڈیشنر یا قدرتی ذرائع سے ماحول اور اشیا کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملے گی۔
  • گھریلو صارفین کو 2050 تک بجلی کے بل کی مد میں ایک ٹریلین ڈالر کی بچت ہو گی اور 2022 سے 2050 کے درمیانی عرصہ میں مجموعی طور پر 17 ٹریلین ڈالر بچائے جا سکیں گے۔
  • زیادہ طلب کے اوقات میں 1.5 تا 2.0 ٹیرا واٹ بجلی کی بچت ہو گی جو کہ یورپی یونین میں پیدا ہونے والی مجموعی بجلی سے دو گنا زیادہ ہے۔ 
  • بجلی پیدا کرنے پر کم از کم 4 تا 5 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں رہے گی۔