انسانی کہانیاں عالمی تناظر
کاپ28 کے دوران ’یوم صحت‘ میں دنیا بھر سے آئے سول سوسائٹی نمائندوں نے شرکت کی۔ زیرنظر تصویر میں کینیڈا کی تنظیم فزیشنز فار اینوائرمنٹ کے جوزف ویپونڈ دیکھے جا سکتے ہیں۔

کاپ28: موسمیاتی بحران صحت کا مسئلہ بھی ہے

COP28/Walaa Alshaer
کاپ28 کے دوران ’یوم صحت‘ میں دنیا بھر سے آئے سول سوسائٹی نمائندوں نے شرکت کی۔ زیرنظر تصویر میں کینیڈا کی تنظیم فزیشنز فار اینوائرمنٹ کے جوزف ویپونڈ دیکھے جا سکتے ہیں۔

کاپ28: موسمیاتی بحران صحت کا مسئلہ بھی ہے

موسم اور ماحول

'کاپ 28' میں صحت اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی بات چیت میں کہا گیا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ دہائیوں میں موسمی شدت کے واقعات ہر سال کم از کم ڈھائی لاکھ لوگوں کی جان لیتے رہیں گے۔

دبئی میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام جاری عالمی موسمیاتی کانفرنس کا چوتھا روز صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر بات چیت کے لیے مخصوص تھا۔ یہ پہلا موقع ہےکہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں صحت کو بھی مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔

Tweet URL

قدرتی آفات، موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بیماریاں لاحق ہونے اور دیگر طبی مسائل سے متاثرہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اس معاملے میں بے عملی کا نتیجہ زندگیوں اور صحت کے نقصان کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

'کاپ 28' میں 'یوم صحت' پر کئی اہم اقدامات دیکھنے کو ملے۔ ان میں صحت عامہ کے حوالے سے موسمیاتی اقدام کے لیے سرکاری و نجی شعبے کی شراکتیں اور متعلقہ مالیاتی و سیاسی وعدے بھی شامل ہیں۔ 

اس موقع پر دنیا بھر سے آنے والے ماحولیات و مالیات کے وزرا نے صحت اور کاروباری شخصیات نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے اقدامات کے بارے میں اعلانات کیے۔ ان میں بل گیٹس اور امریکی صدر کے موسمیاتی نمائندے جان کیری بھی شامل تھے۔ دبئی میں ایکسپو سٹی کے الواہا آڈیٹوریم میں ان مندوبین نے انسانی صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈاکٹر ٹیڈروز کا کہنا تھا کہ اگرچہ موسمیاتی بحران صحت کا بحران ہے، لیکن گزشتہ 27 موسمیاتی کانفرنسوں میں اس موضوع پر سنجیدہ بحث مباحثہ نہیں ہوا تھا۔ اب یہ روایت ٹوٹ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی صحت پر بات چیت کی ضرورت طویل عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی، اور اس کے ساتھ بڑھتی سطح سمندر اور پگھلتے گلیشیئروں جیسے موسمیاتی دھچکوں کے انسانی صحت پر براہ راست اثرات کو دیکھنا بھی ضروری تھا۔ 

انہوں نے لوگوں کو موسمیاتی اثرات سے تحفظ دینے کے اقدامات کی رفتار تیز کرنے کے نئے اعلامیے کا خیرمقدم کیا۔

 اس اعلامیے کی منظوری ہفتے کو 'موسمیاتی اقدامات پر عالمگیر کانفرنس' میں دی گئی تھی۔

لاکھوں اموات کا خدشہ

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق تین ارب سے زیادہ لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلی کے صحت پر اثرات زیادہ شدید ہیں۔ 2030 اور 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بڑھوتری کے مسائل، ملیریا، اسہال اور گرمی سے پیدا ہونے والے جسمانی دباؤ کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں مزید اموات متوقع ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی شدید گرمی کی لہروں، جنگلوں کی آگ، منطقہ حارہ کے جھکڑوں اور طوفانوں کی صورت میں سنگین موسمی حالات کا ایک براہ راست سبب ہے۔ ایسے اور ان جیسے دیگر موسمیاتی دھچکوں کا حجم، تعداد اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ 

صحت اور روزمرہ زندگیوں پر یہ اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں اور عموماً ان کا سب سے زیادہ نقصان قدیمی مقامی باشندوں کو ہوتا ہے۔

برازیل کے نوجوانوں کی تنطیم 'اینگاجامونڈو' سے تعلق رکھنے والے ریوجی کایابی۔
UN News/Sachin Gaur

'ہمیں بھی سنا جائے'

'کاپ 28' کے موقع پر یو این نیوز نے برازیل کے نوجوانوں کی تنطیم 'اینگاجامونڈو' کے ایک وفد سے ملاقات کی جو سماجی و ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ 

اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے ریوجی کایابی برازیل کے علاقے ماٹو گروسو میں ایلڈیا پیکوئزال کے کایابی یوجا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقے میں تین مرکزی ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں جن میں سیراڈو، پینٹانال اور ایمازون کے بارانی جنگلات شامل ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کا علاقہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے تاہم اس کے باجود موسمیاتی تبدیلی وہاں بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ انہیں شدید گرمی کا سامنا ہے، ان کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں اور لوگوں کو تکالیف کا سامنا ہے۔ دریا خشک ہونا شروع ہو گیا ہے، مچھلیاں مر رہی ہیں اور جانوروں کی زندگی کو حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو وضاحت سے بیان کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ پہلی مرتبہ اس موسمیاتی کانفرنس میں آئے ہیں اور قدیمی مقامی نسل کے نوجوان کی حیثیت سے ناصرف اپنے علاقے بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

ریوجی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے، اسے احترام دیا جائے اور فیصلہ سازی میں اسے مدنظر رکھا جائے۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مدافعت

ڈاکٹر ٹیڈروز نے وزارتی اجلاس سے خطاب میں صحت اور موسمیاتی مسئلے پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کی بنیادی شرائط کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ صحت کو موسمیاتی پالیسیوں کا حصہ بنانے کے لیے رہنماؤں کو اس کے اور موسمیاتی اثرات کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہو گا۔اس حوالے سے مقامی لوگوں کے ساتھ شمولیت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ان میں غریب اور بدحال لوگ بھی شامل ہیں جو عام طور پر موسمیاتی مسئلے سے دوسروں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے میں ان لوگوں کی بات کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ ان اہداف کو پانے کے لیے طبی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی ضروری ہو گی۔ 

ڈاکٹر ٹیڈروز نے ممالک کے مابین تعاون، دوسرے ممالک کی کامیاب مثالوں سے سیکھنے اور پھر ان پر مقامی تناظر میں عملدرآمد کی اہمیت کو بھی واضح کیا۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل کی راہ واضح ہے۔ دنیا کو اس حوالے سے درکار اقدامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے مزید وقت صرف کرنے اور نئے سرے سے کوششوں کی ضرورت نہیں۔