انسانی کہانیاں عالمی تناظر
پاکستان کو گزشتہ سال (2022) غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کا سامنا رہا جس کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔

پاکستان: پائیدار ترقی پر کانفرنس میں موسمیاتی بحران زیر بحث

© UNICEF/Shehzad Noorani
پاکستان کو گزشتہ سال (2022) غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کا سامنا رہا جس کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔

پاکستان: پائیدار ترقی پر کانفرنس میں موسمیاتی بحران زیر بحث

پائیدار ترقی کے اہداف

موسمی شدت کے بڑھتے ہوئے واقعات پاکستان میں لوگوں کی زندگی اور روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔ اس صورتِ حال پر قابو پانے اور پائیدار ترقی کے لیے ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے اور اس سے مطابقت پیدا کرنے کے سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں اور دنیا بھر سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین نے یہ بات پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی 26ویں سالانہ 'کانفرنس برائے پائیدار ترقی' (ایس ڈی سی) میں کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 0.9 فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن پاکستان اس اخراج سے آنے والی موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔ اگر اس خطرے پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کو خوراک، توانائی اور پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

21 تا 23 نومبر ہونے والی اس کانفرنس کا اہتمام ادارہ برائے پائیدار ترقی پالیسی (ایس ڈی پی آئی) نے اقوام متحدہ کے اداروں یو این ڈی پی، یو این ای پی، ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کے اشتراک سے کیا۔

پاکستان کے صدر عارف علوی نے وسائل کو اسلحہ کی بجائے ترقی پر خرچ کرنے کے لیے عالمی عزم اور اتفاق پر زور دیا۔
Photo courtesy: SDPI/Pakistan
پاکستان کے صدر عارف علوی نے وسائل کو اسلحہ کی بجائے ترقی پر خرچ کرنے کے لیے عالمی عزم اور اتفاق پر زور دیا۔

کانفرنس کا عنوان 'تاریکی سے روشنی تک: مایوسی کے دور میں امید' تھا۔ 

'ایس ڈی پی آئی' ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق بہت سے شعبوں میں تحقیق اور اس بارے میں پالیسی سازوں کو مشاورت مہیا کرتا ہے۔ 

30 نومبر سے دبئی میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس 'کاپ 28' سے قبل پاکستان کے تناظر میں 'ایس ڈی سی' کا انعقاد خاص اہمیت کا حامل تھا۔

اس موقع پر موسمیاتی و ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے طریقے، موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے میں نجی شعبے، اختراع و ٹیکنالوجی کے کردار اور قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں حائل مسائل زیربحث آئے۔

ترجیحات بدلنے کی ضرورت

کانفرنس سے افتتاحی خطاب میں پاکستان کے صدر مملکت عارف علوی نے موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے پائیدار ترقی کے لیے اخلاقی اصولوں اور موثر پالیسیوں پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا ہر سال ٹیکس دہندگان کے تقریباً 10 ٹریلین ڈالر ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے بجائے سالانہ صرف ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر کے دنیا میں موسمیاتی مسائل، بھوک اور ناخواندگی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

صدر علوی نے کہا کہ وسائل کو تخریب کے بجائے ترقی پر خرچ کرنے کے لیے عالمی عزم اور اتفاق درکار ہے۔ 

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ سیموئل رزک نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو سماجی و سیاسی معاہدہ کرنا ہو گا۔ اس طرح حکومت کے فیصلوں سے ان تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو موسمیاتی تبدیلی، غربت، بھوک اور دیگر مسائل سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں یو این ڈی پی کے نمائندہ سیموئل رزک کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں جبکہ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری ساتھ بیٹھے ہیں۔
Photo courtesy: SDPI/Pakistan
پاکستان میں یو این ڈی پی کے نمائندہ سیموئل رزک کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں جبکہ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری ساتھ بیٹھے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ 

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق ملک کی کُل قومی پیداوار میں اس شعبے کا حصہ 23 فیصد ہے اور 37.4 فیصد افرادی قوت بھی اسی شعبے سے وابستہ ہے۔

تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے اس شعبے کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا ہے۔ گلیشیئر پگھلنے اور بارشوں کے دورانیے اور شدت میں آنے والی کمی بیشی کے نتیجے میں سیلابی کیفیات اور خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس طرح قدرتی آفات، بھوک اور بدحالی سے ناصرف معیشت اور پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے شروع کیے گئے ترقیاتی پروگرام بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ انسانی زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔

اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں یو این ڈی پی کی نائب نمائندہ ڈاکٹر وان نوئن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے زرعی شعبے کے لیے پائیدار اور اختراعی طریقہ ہائے کار متعارف کرانا ضروری ہے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ حکومت، ماہرین علم، نجی شعبے اور ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر باہمی اشتراک سے کام کریں اور اس ضمن میں انفرادی طرزعمل میں تبدیلی لانے کی کوششیں خاص طور پر اہم ہیں۔

زراعت اور خوراک کا ضیاع

موسمیاتی تبدیلی اور تحفظ خوراک کے موضوع پر بات کرتے ہوئے 'ایس ڈی پی آئی' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبے کو بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فصل کی پیداوار بڑھانے کے لیے ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز کرتے ہوئے ہر طرح کے طریقوں اور غیرمعیاری زیرزمین پانی کا استعمال ان کی بڑی وجوہات ہیں۔ اس طرح زمین کی زرخیزی میں کمی آتی ہے، بنجر پن میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ خوراک کی پیداوار میں کمی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ 

انہوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے زمین میں متنوع اقسام کی فصلوں کی کاشت اور قدرتی وسائل کے بہتر انتظام سے متعلق تجاویز پیش کیں۔

وفاقی وزارت منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات میں 'پائیدار ترقی کے اہداف' سے متعلق ٹاسک فورس کے نمائندے ڈاکٹر علی کمال نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ پائیدار ترقی و پیداوار کے لیے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال بند کرنے اور انہیں اس طرح کام میں لانے کی ضرورت ہے جو خاص طور پر ماحولیاتی نقطہ نظر سے سماجی فائدہ پہنچائیں۔

پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔
© FAO/Sumy Sadurni
پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔

موسمی آفات سے بچاؤ اور بحالی 

گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے مطابق اس سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔

کانفرنس میں قدرتی آفات کے اثرات سے بچاؤ اور ان سے بحالی کے موضوع پر پاکستان میں ادارہ محنت (آئی ایل او) کے سربراہ گیئر تھامس ٹونسٹول کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا۔ اس موقع پر آفات سے نقصان کو محدود رکھنے کے طریقوں پر بات چیت کی گئی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے والی پائیدار تعمیرات کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئیں۔ 

'جنوبی ایشیا میں ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی' سے متعلق اجلاس میں ماہرین نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ قدرتی آفات کے نقصانات سے بچاؤ کے انتظام میں صنفی بااختیاری اور استحکامی پالیسیوں کو اہمیت دیں۔

شعبہ ٹرانسپورٹ آلودگی کی بڑی وجہ

پاکستان میں 'یو این ڈی پی' کے معاون نمائندے عامر خان گورایہ نے کاربن کے اخراج میں کمی لانے کی اہمیت کو واضح کیا اور اس مقصد کے لیے پائیدار انداز میں پیداوار و صرف کے لیے ترغیبی اقدامات پر زور دیا۔ 

اس موضوع پر منعقدہ اجلاس میں وزارت قومی صحت میں منصوبہ بندی کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر حسن بن حمزہ کا کہنا تھا کہ ملک میں نقل وحمل کے شعبے سے کاربن کا اخراج سب سے زیادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا ناقص ٹرانسپورٹ سسٹم لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ 

عالمی ادارہ صحت میں طبی پالیسی و نظام پر تحقیق کے لیے قائم کردہ اتحاد کے سربراہ ڈاکٹر رابرٹن مارٹن نے کہا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے مقابل مستحکم طبی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

تین روزہ کانفرنس میں دنیا بھر سے 200 سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔
Photo courtesy: SDPI/Pakistan
تین روزہ کانفرنس میں دنیا بھر سے 200 سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔

مایوسی کے دور میں امید

کانفرنس میں پائیدار طور سے مشمولہ و مساوی ترقی کے بارے میں بہت سے موضوعات پر تقاریر، گروہی مباحثے اور اجلاس ہوئے۔ اس میں ایسے موسمیاتی مسائل کا بطور خاص تذکرہ ہوا جنہوں نے جنوبی ایشیا میں ترقیاتی ایجنڈے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تاہم کانفرنس کے شرکا کا کہنا تھا کہ مشکل حالات کے باوجود پائیدار ترقی کے لیے امید بدستور قائم ہے۔

اس موقع پر ماہرین تعلیم، محققین، پیشہ ور افراد، قانون سازوں، سرکاری حکام اور سیاست دانوں نے پاکستان اور خطے کو درپیش گوناں گوں ترقیاتی مسائل کے حل سے متعلق اپنی تجاویز پیش کیں اور مایوسی کے دور میں امید کا پیغام دیا۔

تین روزہ کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا، بنگلہ دیش، کینیڈا، چین، جرمنی، اٹلی، بھارت، کینیا، نیپال، ناروے، قطر، تھائی لینڈ، پاکستان، فلپائن، سنگاپور، سری لنکا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ سے 200 سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق پاکستان میں کام کرنے کے لائق 37.4 فیصد لوگ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں۔
Muhammad Faisal
عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق پاکستان میں کام کرنے کے لائق 37.4 فیصد لوگ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں۔