انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان سے لوٹنے والے افغان مہاجرین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا

پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغان شہریوں کے لیے طورخم کی سرحد پر عبوری کیمپ بنایا گیا ہے جہاں انہیں بائیومیٹرک جانچ پڑتال کے بعد افغانستان بھیجا جاتا ہے۔
Mehrab Afridi
پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغان شہریوں کے لیے طورخم کی سرحد پر عبوری کیمپ بنایا گیا ہے جہاں انہیں بائیومیٹرک جانچ پڑتال کے بعد افغانستان بھیجا جاتا ہے۔

پاکستان سے لوٹنے والے افغان مہاجرین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) نے پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں کی مدد کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو افغانستان میں غیریقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

'آئی او ایم' کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں 375,000 افغانوں نے پاکستان چھوڑا ہے۔ ان کی بڑی تعداد طورخم اور سپن بولدک کے سرحدی راستوں سے واپس آئی۔

Tweet URL

طورخم افغانستان کے دارالحکومت کابل سے قریب پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے اور سپن بولدک افغانستان کے جنوب میں پاکستان سے متصل صوبے قندھار کا حصہ ہے۔ 

ادارہ اور اس کے امدادی شراکت دار ان دونوں سرحدی راستوں سے واپس آنے والوں کو ضروری مدد مہیا کر رہے ہیں۔ 

حالیہ دنوں روزانہ پاکستان سے افغانستان جانے والوں کی تعداد بڑھ کر 17 ہزار تک پہنچ گئی ہے جو پہلے تقریباً 200 ہوا کرتی تھی۔ اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد سے افغانستان میں وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ 

مایوس کن صورت حال

افغانستان کے لیے 'آئی او ایم' کے مشن کی سربراہ ماریا موئتا کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا انسانی بحران ہے اور ان لوگوں کی محفوظ اور باوقار واپسی یقینی بنانے کے لیے مالی وسائل کی فوری ضرورت ہے۔ افغانستان واپس آنے والے لوگوں کے حالات مایوس کن ہیں۔ 

بیشتر لوگوں نے بتایا کہ انہیں پاکستان سے واپسی پر مجبور کیا گیا اور وہ اپنی املاک اور جمع پونجی وہیں چھوڑ آئے ہیں۔یہ لوگ انتہائی بدحال ہیں اور انہیں ناصرف سرحد پر بلکہ وہ جن علاقوں کو واپس جا رہے ہیں وہاں بھی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ 

یہ بحرانی کیفیت پاکستان کی جانب سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپس بھیجنے کے منصوبے پر عملدرآمد کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ 26 ستمبر کو پاکستان کی حکومت نےکہا تھا کہ ایسے غیرملکی یکم نومبر تک رضاکارانہ طور سے ملک چھوڑ دیں۔ ان غیرملکیوں میں غالب اکثریت افغان پناہ گزینوں کی ہے جو مختلف ادوار میں پاکستان آئے تھے۔ 

امدادی اقدامات

'آئی او ایم' کے زیرقیادت امدادی ادارے ملک واپس آنے والوں کو پناہ، پانی، نکاسی آب کی سہولت، ضروری سامان، تحفظ اور غذائیت مہیا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بنیادی ضروریات، نقل و حمل اور خوراک کے حصول کے لیے نقد امداد بھی دی جا رہی ہے۔

بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد کے باعث افغانستان میں ان کی وصولی کے لیے بڑے مراکز کے قیام کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کا مقصد انہیں اپنی حتمی منزل کو روانہ ہونے سے پہلے مدد فراہم کرنے میں سہولت دینا ہے۔

پاکستان سے افغانستان پہنچنے والے لوگوں کو نقد امداد دی جا رہی ہے۔
© UNHCR/Caroline Gluck
پاکستان سے افغانستان پہنچنے والے لوگوں کو نقد امداد دی جا رہی ہے۔

غیریقینی مستقبل

دنیا بھر میں اندرون ملک بے گھر افراد کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ پہلے ہی اندرون ملک بے گھر ہیں۔ ایسے میں پاکستان سے واپس آنے والوں کو غیریقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

'آئی او ایم' کے مطابق سالہا سال تک جنگوں، عدم استحکام اور معاشی بحران کے باعث افغانستان کو بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنانے میں مشکل کا سامنا ہو گا۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دہائیوں تک ملک سے باہر رہتے رہے ہیں۔

سرحد پر کام کرنے والے امدادی اداروں نے ضروریات کا تخمینہ لگاتے ہوئے ان لوگوں کی مدد کے لیے ابتدائی اپیل جاری کی ہے۔ افغانستان کے حالات خواتین اور لڑکیوں کے لیے خاص طور پر مشکل ہیں۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ملک میں بین الاقوامی مدد کی ہنگامی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔