انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یو این اہم معاہدے کے چونتیس سال بعد بچوں کے حقوق خطرے میں

چھ سالہ شامی بچہ جو جنگ سے بچ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ عراق میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
© UNICEF/Anmar Rfaat
چھ سالہ شامی بچہ جو جنگ سے بچ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ عراق میں پناہ لیے ہوئے ہے۔

یو این اہم معاہدے کے چونتیس سال بعد بچوں کے حقوق خطرے میں

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی سربراہ کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ جنگوں، بڑھتی ہوئی غربت اور موسمیاتی تبدیلی سے بچوں کے لیے خطرہ بڑھ رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے ان کے حقوق برقرار رکھنا ہوں گے۔

بچوں کے عالمی دن پر اپنے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت، عدم مساوات، صحت عامہ کے ہنگامی حالات اورموسمیاتی خطرات بچوں کو بیک وقت متاثر کر رہے ہیں۔

Tweet URL

یہ دن بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن (سی آر سی) کی منظوری کی سالگرہ پر منایا جاتا ہے۔ یہ کنونشن بچوں کے حوالے سے انسانی تاریخ کا نمایاں ترین معاہدہ ہے۔ 

کیتھرین رسل نے کہا کہ آج بچوں کے حقوق کو جس قدر خطرہ ہے اتنا 34 سال پہلے یہ معاہدہ ہونے کے بعد اب تک کبھی نہیں دیکھا گیا۔ 

بچے بحرانوں کا ہدف

اگرچہ 1989 میں منظور کیے جانے والے اس معاہدے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق ناقابل انتقال ہیں جنہیں تحفظ دینے اور برقرار رکھنے کا حکومتوں نے وعدہ کیا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے آج بچے ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ان کے حقوق کو لاحق خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

جنگوں سے متاثرہ بچوں کے لیے یہ خطرہ خاص طور پر واضح ہے۔

یونیسف کا اندازہ ہے کہ تقریباً 40 کروڑ بچے یا ہر پانچ میں سے ایک بچہ یا تو جنگ زدہ ماحول میں رہ رہا ہے یا وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے۔ ایسے حالات میں بہت سے بچے زخمی، ہلاک یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے اہلخانہ اور دوستوں کو کھو رہے ہیں۔ بعض بچوں کو مسلح فورسز یا گروہوں کے لیے بھرتی اور استعمال کیا جا رہا ہے۔

بہت سے بچے کئی مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں، انہیں اپنے خاندانوں سے جدائی کا سامنا ہے، ان کی تعلیم کا اہم وقت ضائع ہو رہا ہے اور اپنے علاقوں اور لوگوں سے ان کے تعلقات کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔

ایک ارب بچوں کو موسمیاتی خطرے کا سامنا

کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ متواتر بڑھتی عالمی حدت سے دنیا کے نصف بچوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ بڑھتے ہوئے تند و تیز طوفانوں میں بچے اپنے گھروں یا سکولوں سے محروم ہو سکتے ہیں، خشک سالی کے باعث انہیں جسمانی کمزوری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ شدید گرمی کی لہروں یا ہوائی آلودگی کے نتیجے میں نمونیا لاحق ہونے کے باعث ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ 

یونیسف کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’انرا‘ کے تحت چلنے والوں سکولوں میں آٹھ لاکھ بے گھر فلسطینی افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔
© WFP/Ali Jadallah
غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’انرا‘ کے تحت چلنے والوں سکولوں میں آٹھ لاکھ بے گھر فلسطینی افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔

بچوں کو امن کی فوری ضرورت

کیتھرین رسل نے بچوں کے حقوق کی تکمیل اور تحفظ کی مضبوط وکالت پر زور دیا۔ اس میں قومی سطح پر قانونی نظام کو 'سی آر سی' سے ہم آہنگ کرنا اور جہاں بچوں کے حقوق پامال ہوں وہاں احتساب یقینی بنانا بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بارے میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر واضح طور پر کہا ہے کہ بچوں کو امن کی فوری ضرورت ہے۔

دکھ کی گھڑی

بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ہر جگہ جنگ بندی اور تمام بچوں کے تحفظ کے لیے بنیادی انسانی قانون کی بحالی کے لیے کہا ہے۔ 

ایک بیان میں کمیٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ بچوں کا عالمی دن ایسے موقع پر آیا ہے جب بہت سے لڑکے اور لڑکیاں مسلح جنگ میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ غزہ میں پانچ ہفتوں میں ہی 4,600  سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں جتنے بچوں کی جس وحشیانہ طریقے سے ہلاکت ہوئی ہے اس کی مثال حالیہ دہائیوں میں کہیں نہیں ملتی۔