پاکستان میں ’اموات کی دوسری لہر‘ سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے 816 ملین ڈالر کی اپیل
پاکستان میں اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ نے کہا ہے کہ جون سے جاری تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ایک تہائی ملک زیرآب آنے کے بعد ''موت اور تباہی کی دوسری لہر'' کو روکنے کے لیے 160 ملین کے بجائے 816 ملین ڈالر امداد کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جولین ہرنیس نے سوموار کو جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ امداد جلد مہیا نہ ہونے کی صورت میں بچوں میں بیماریاں پھیلنے، ملیریا اور ڈینگی کی وبائیں پھوٹنے اور غذائی قلت میں اضافے کا خطرہ ہے۔
⚠️ 20.6 million people are in need of humanitarian aid in flood-ravaged #Pakistan.
@GovtofPakistan, the @UN and humanitarian partners now require US$816M to scale up life-saving assistance.
New response plan: https://t.co/l7F1SM5Gfd https://t.co/4JNlfvmDXV
UNOCHA
پاکستان کی حکومت کو ملک میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صحت، غذائیت، پانی اور نکاسی آب کی خدمات بہم پہنچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے سے متعلق منگل کو شائع ہونے والے اقوام متحدہ کے نظرثانی شدہ منصوبے کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں، قریباً 1700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 20.6 ملین لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔
توسیعی امدادی منصوبے میں آئندہ سال مئی کے اختتام تک 9.5 ملین لوگوں کو امداد پہنچانے کی بات کی گئی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 84 اضلاع ''آفت سے متاثرہ'' ہیں جن کی زیادہ تعداد بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہے۔ سیلاب میں کم از کم 7.9 ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں قریباً 600,000 امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ سیلاب کے نتیجے میں اندازاً 800,000 افراد نے مہاجرت اختیار کی ہے جن میں بچوں کی تعداد تقریباً 400,000 ہے۔
ہرنیس کا کہنا تھا کہ ''ہمیں یہ تمام وسائل فوری درکار ہیں'' اور سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے لیے مزید وسائل جمع کرنے کے لیے اس سال کے آخر میں ایک بین الاقوامی امدادی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔'
'صحت عامہ کی تباہی' کا خطرہ منڈلا رہا ہے: ٹیڈراس
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈراس ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ سیلاب میں تقریباً 10 فیصد طبی مراکز تباہ ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ''سیلاب میں 1500 سے زیادہ لوگوں کی اموات المناک واقعہ ہے تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ بروقت فیصلہ کن انتباہ اور حکومت اور مقامی لوگوں کی جانب سے اٹھائے گئے فوری اقدامات'' کی بدولت بہت سے لوگوں کی جان بچ گئی۔''
ٹیڈراس نے کہا کہ پاکستان کی حکومت قابل ''فہم طور پر دباؤ میں ہے اور اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔
پانی چڑھنا بند ہو گیا ہے لیکن خطرہ اب بھی باقی ہے۔ ہم صحت عامہ کی تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 2000 سے زیادہ خواتین روزانہ زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں اور ان کی بڑی تعداد غیرمحفوظ ماحول میں رہ رہی ہے۔
لوگوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ''اگر پاکستان کے لیے خاطرخواہ امداد جمع نہ کی گئی تو آنے والے ہفتوں میں سیلاب سے ہونے والی اموات سے کہیں بڑی تعداد میں مزید ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔'' انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے عالمی برادری کو مربوط طریقہ کار اپنانا ہو گا ''جس میں ہر ادارے کے انفرادی کام پر کم اور لوگوں کی ضروریات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جائے۔''
انہوں نے کہا کہ یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ ''جب تک ہم موسمیاتی تبدیلی کے موجودہ خطرے پر قابو نہیں پاتے اس وقت تک ہمیں حالیہ سیلاب جیسے اور اس سے بھی سنگین ہنگامی حالات کا سامنا رہے گا۔''