انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی آفات سے چھ سالوں میں 43.1 ملین بچے بے گھر، یونیسف

گزشتہ سال پاکستان میں آئے غیر معمولی سیلاب سے لاکھوں بچے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
© UNICEF/Loulou d'Aki
گزشتہ سال پاکستان میں آئے غیر معمولی سیلاب سے لاکھوں بچے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

موسمیاتی آفات سے چھ سالوں میں 43.1 ملین بچے بے گھر، یونیسف

موسم اور ماحول

موسمیاتی آفات کے باعث دنیا بھر میں روزانہ 20 ہزار بچوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اور گزشتہ چھ برس کے دوران 44 ممالک میں 43.1 ملین بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔

یہ انکشاف 'بدلتے موسمی حالات میں بچوں کی نقل مکانی' کے موضوع پر یونیسف کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ سیلاب، طوفانوں، خشک سالی اور جنگلوں کی آگ کے نتیجے میں بچوں کی نقل مکانی سے متعلق پہلا عالمگیر تجزیہ ہے جس سے آئندہ تین دہائیوں کے ممکنہ موسمیاتی رحجانات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

Tweet URL

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائن رسل نے لوگوں کو قدرتی آفات سے بچاؤ کی تربیت دینے، بچوں کو نقل مکانی کے خدشے سے محفوظ رکھنے اور پہلے ہی بے گھر ہو چکے بچوں کی مدد کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "ہمارے پاس بچوں کو درپیش اس بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار ذرائع اور علم موجود ہے لیکن ہمارے اقدامات کی رفتار بہت سست ہے۔"

بچوں کو درپیش اس بحران کی وسعت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہکوئی بھی بچہ جب اپنے علاقے میں جنگلوں کی تند و تیز آگ، طوفان یا سیلاب دیکھتا ہے تو یہ منظر اس کے لیے انتہائی خوفناک ہوتا ہے۔ 

ان حالات میں جن بچوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ان کے لیے یہ خوف یا اس قدرتی آفت کا اثر خاص طور پر تباہ کن ہوتا ہے۔ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ آیا وہ اپنے گھر واپس جا سکیں گے، تعلیم جاری رکھ سکیں گے یا انہیں دوبارہ اپنی جگہ چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں آںے والی شدت کے ساتھ موسمیاتی عوامل کے نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی بھی بڑھ رہی ہے۔ 

عالمی جائزہ

نقل مکانی کرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے چین اور فلپائن سرفہرست ہیں۔ تاہم کسی ملک میں بچوں کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں بے گھر بچوں کے تناسب کو دیکھا جائے تو ڈومینیکا اور وینوآٹو جیسے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک طوفانوں سے کہیں بری طرح متاثر ہوتے ہیں جبکہ صومالیہ اور سوڈان کو سیلاب سے متعلقہ نقل مکانی کے بدترین اثرات کا سامنا رہتا ہے۔

یونیسف کے مطابق چین اور فلپائن میں بڑی تعداد میں بچوں کی نقل مکانی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں شدید موسمی واقعات بڑی تعداد میں پیش آتے ہیں، ان ممالک میں بچوں کی آبادی دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور وہاں آفات سے بروقت آگاہی کے بہتر نظام موجود ہیں اور لوگوں کو آفت زدہ علاقوں سے نکالنے کی اہلیت بھی پائی جاتی ہے۔ 

ہیٹی کو پہلے ہی قدرتی آفات میں بچوں کی بے گھری سے سنگین درجے کا خطرہ لاحق ہے جبکہ اسے تشدد اور غربت کے ساتھ خطرات کو محدود رکھنے اور ان کی تیاری کے لیے محدود وسائل جیسے مسائل بھی درپیش ہیں۔ 

موزمبیق کی شہری آبادی میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد سمیت غریب ترین لوگ شدید موسمی واقعات کے بدترین نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔ 

بے گھری کی وجوہات 

2016 اور 2021 کے درمیانی عرصہ میں بچوں کی نقل مکانی کے واقعات کو دیکھا جائے تو سیلاب اور طوفانوں کے نتیجے میں 40.9 ملین یا 95 فیصد بچے بے گھر ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسی آفات کے بارے میں اطلاعات دینے کے بہتر نظام کی بدولت خطرہ سر پر آنے سے پہلے ہی لوگوں کو ان کےعلاقوں سے نکال لیا گیا۔ 

اس عرصہ میں خشک سالی کے نتیجے میں 1.3 ملین سے زیادہ بچوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور ایسے حالات سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں صومالیہ سرفہرست رہا۔ 

جنگلوں میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 810,000 بچے بے گھر ہوئے اور ایسے ایک تہائی سے زیادہ واقعات 2020 میں پیش آئے۔ جن ممالک کو جنگلوں کی آگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں کینیڈا، اسرائیل اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ 

عملی اقدامات کی ضرورت

اقوام متحدہ نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں اور نوعمر افراد کو موسمیاتی اعتبار سے تبدیل ہوتی دنیا میں رہنے کے لیے تیار کریں۔ اس سلسلے میں قدرتی آفات کے مقابلے کی صلاحیت میں بہتری لانا اور مسائل کے مشمولہ حل ڈھونڈنے کے عمل میں ان کی شرکت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ 

دنیا بھر کے ممالک نومبر میں عالمی موسمیاتی کانفرنس 'کاپ 28' کی تیاری کر رہے ہیں اور اس موقع پر یونیسف حکومتوں، ترقیاتی شراکت دارں اور نجی شعبے پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایسے بچوں اور نوعمر لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے فوری قدم اٹھائیں جنہیں مستقبل میں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔

یونیسف نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی پالیسیوں اور اس حوالے سے سرمایہ کاری میں بچوں اور نوعمر افراد کو ترجیح دینے کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ اس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو موسمی شدت کے واقعات کے باعث پہلے ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔