انسانی کہانیاں عالمی تناظر
پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

مستقل ارکان کی تعداد بڑھانے سے سلامتی کونسل کی ساکھ متاثر ہوگی: کاکڑ

UN Photo/Cia Pak
پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

مستقل ارکان کی تعداد بڑھانے سے سلامتی کونسل کی ساکھ متاثر ہوگی: کاکڑ

اقوام متحدہ کے امور

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مجوزہ اصلاحات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقل ارکان کی تعداد بڑھانے سے ادارے کی ساکھ اور حیثیت متاثر ہوگی اور تجویز دی کہ اس کی بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد اور مدت میں اضافہ کرنا مناسب رہے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں سالانہ اجلاس کے شرکاء سے جمعہ کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک عالمی معاملات میں اشرافیت کی بجائے برابری کا قائل ہے اور دنیا کو اس وقت جن پیچیدہ علاقائی اور عالمی مسائل کا سامنا ہے ان سے اقوام متحدہ کے فریم ورک میں رہتے ہوئے کثیر فریقی سفارتکاری کی مدد سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں اپنے تزویراتی مقاصد کے لیے مسائل کے کثیر فریقی حل کو نظرانداز کرتے ہوئے یک طرفہ اقدامات اٹھاتی ہیں، لیکن ان کا ملک کثیر فریقی اداروں کی مضبوطی اور عالمی تعاون بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ’مستقبل کی کانفرنس‘ کے حوالے سے مزاکرات اور مشاورت میں حصہ لیتا رہے گا لیکن اس کانفرنس کی تیاری کے مرحلے میں سلامتی کونسل میں اصلاحات پر حکومتوں کے درمیان جاری بات چیت کو درہم برہم نہیں ہونا چاہیے۔

نازک وقت

انوارالحق کاکڑ نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب یوکرین سمیت دنیا میں کئی جگہوں پر تنازعات چل رہے ہیں، عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، پرانے اور نئے ملٹری بلاک سامنے آ رہے ہیں، اور معیشت کی بجائے جغرافیائی سیاست مرکز نظر بنی ہوئی ہے۔ ’دنیا دوسری سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس کی بجائے انسانیت کو عالمی تعاون اور اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کووڈ۔19، موسمیاتی بحران، اور تنازعات نے ترقی پذیر ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے تین دہائیوں میں کی گئی ترقی ضائع ہوگئی ہے اور گلوبل ساؤتھ کے کئی ممالک بڑی مشکل سے دیوالیہ ہونے سے بچے ہیں۔

پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول پر بات کرتے ہوئے انہوں نے قرضوں کے دباؤ میں آئے 59 ممالک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ترقیاتی بنکوں میں غیر استعمال شدہ مالیات کو بروئے کار لانے کا مطالبہ کیا۔

نقصان اور تباہی کا ازالہ

موسمیاتی بحران پر گزشتہ برس ہونے والی کانفرنس کاپ27 میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کیے گئے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ کلائمیٹ فنانس کے لیے سالانہ ایک سو ارب ڈالر مختص کرنے کے وعدے کا پاس کیا جائے اور اس فنڈ کے کم از کم نصف کو ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے پر خرچ ہونا چاہئے تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی بحران سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے، گزشتہ سال کے غیرمعمولی سیلابوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا، 1700 لوگ ہلاک اور 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، اور معاشی ڈھانچہ بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا جس سے پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور معیشت کی بحالی کے لیے گزشتہ سال جنیوا میں کیے گئے امدادی و ترقیاتی وعدے پورے کیے جائیں گے۔

امن اور ترقی

وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ ترقی کا انحصار امن پر ہے اور ان کا ملک اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی خطے میں واقع تمام ممالک مل کر ترقی کرتے ہیں، اس لیے پاکستان انڈیا سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن اور بامعنی تعلقات چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن میں کشمیر بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جموں و کشمیر تنازعہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے پرانے معاملات میں سے ایک ہے، انڈیا سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے مسلسل چشم پوشی کرتا آ رہا ہے، نتیجتاً اس مسئلے کے حل کا واحد راستہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے ہی رہ جاتا ہے تاکہ کشمیری عوام اپنے مسقتبل کا خود فیصلہ کریں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل اس مسئلے پر اپنی قراردادوں پر عمل کرائے اور عالمی طاقتیں انڈیا کو قائل کریں کہ وہ روایتی اور تزویراتی ہتھیاروں پر باہمی احتیاط اختیار کرنے کی پاکستانی پیشکش کا مثبت جواب دے۔

وزیراعظم کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے تزویراتی اہمیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے ان کا ملک عالمی برادری کے تحفظات سمجھتا ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے، لیکن اس کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ وہاں امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔

انہوں نے شام اور یمن میں تنازعات کے خاتمے کی کوششوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات معمول پر آنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطین کا المیہ ابھی جاری ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خطے میں امن مسئلے کے دو ریاستی حل میں ہی پنہاں ہے۔

انوارالحق کاکڑ نے اسلاموفوبیا سمیت نفرت کی ہر شکل کی مذمت کرتے ہوئے کہا مذہبی مقامات، مقدس کتابوں اور علامت کا احترام کیا جانا چاہیے۔