انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جھگڑے چھوڑیں اور مل کر پائیدار ترقی کے لیے کام کریں: حسینہ واجد

بنگلہ دیش کی وزیراعظم بیگم حسینہ واجد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔
UN Photo/Laura Jarriel
بنگلہ دیش کی وزیراعظم بیگم حسینہ واجد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔

جھگڑے چھوڑیں اور مل کر پائیدار ترقی کے لیے کام کریں: حسینہ واجد

اقوام متحدہ کے امور

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کا راستہ ترک کر کے پائیدار امن کی راہ پر چلیں اور اپنے لوگوں اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لیے متحد ہو کر کام کریں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے عام مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کووڈ وبا کے طویل مدتی اثرات اور موسمیاتی بحران نے ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول میں بڑے پیمانے پر رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین میں جاری جنگ کے وسیع تر اثرات نے بھی ان اہداف کا حصول مشکل بنا دیا ہے جو عالمی سطح پر خوراک، مالیات اور توانائی کے تحفظ کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ 

ایس ڈی جی کا حصول ممکن بنانے کے لیے آئندہ برس ہونے والی مستقبل کی کانفرنس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں تمام لوگوں کے پُرامن، خوشحال اور پائیدار مستقبل کے لیے انسانیت کو درپیش مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی"۔ 

بنگلہ دیش کی ترقی 

شیخ حسینہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کم آمدنی والے ممالک کے درجے سے نکل کر متوسط آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔ 2006 میں ملک میں غربت کی شرح 41.5 فیصد تھی جو 2022 میں کم ہو کر 18.7 فیصد رہ گئی ہے۔ 

انہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے نادار خواتین، بیواؤں، معمر، جسمانی معذور اور تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے افراد اور معاشرے کے دیگر پسماندہ لوگوں کو سماجی و مالیاتی تحفظ کی فراہمی کا دائرہ بڑھانے کے بارے میں بھی بتایا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مالی سال میں سماجی تحفظ کے پروگراموں کے لیے 12 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ 

خواتین کو بااختیار بنانے اور مخصوص عرصہ میں صنفی مساوات کے حصول کے لیے بنگلہ دیش کے عزم کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں خواتین کو خواندہ بنانے سمیت مجموعی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیمی درجوں تک 23 ملین طلبہ کو جیب خرچ، وظائف اور ایک مالی گرانٹ دی جا رہی ہے جن میں نصف سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔

موسمیاتی اقدام 

موسمیاتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بنگلہ دیش کا حصہ 0.47 فیصد سے بھی کم ہے تاہم اس کا شمار اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ بحران ملک کی سلامتی اور معاشی خوشحالی پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ 
انہوں ںے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے ممالک سے کہا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر مہیا کرنے کے وعدوں کو پورا کریں۔ انہوں نے 'کاپ 27' میں طے پانے والے نقصان اور تباہی کے فنڈ کو ہنگامی بنیادوں پر فعال کرنے کے لیے بھی کہا۔ 

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی حکومت کے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں ںے 'بنگلہ دیش کلائمیٹ چینج ٹرسٹ فنڈ' کے بارے میں بتایا۔ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے یہ فنڈ 2009 میں قائم کیا گیا تھا اور بنگلہ دیش نے اپنے ذرائع سے اس میں اب تک 480 ملین ڈالر جمع کیے ہیں۔

دہشت کردی کے خطرات

وزیراعظم نے دہشت گردی کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے اس خطرے کو نئی صورتیں دے دی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت نے دہشت گردی اور متشدد انتہا پسندی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

روہنگیا مہاجرین

روہنگیا بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں ںےکہا کہ میانمار سے آنے والے یہ پناہ گزین اپنے ملک واپس جانا اور وہاں پُرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ ان بدحال لوگوں کو اپنے ملک میں روشن مستقبل کی امید دلائے اور اس کے لیے خطے میں تحفظ اور استحکام کو فروغ دینے کے اقدامات کرے۔