انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پائیدار ترقی کے حصول کی سالانہ لاگت کم از کم 5 ٹریلین ڈالر: انکٹاڈ

افغانستان کے ایک سکول کے طلباء۔ اندازوں کے مطابق سال 2030 تک پائیدار ترقی کے حصول کی عالمی فی کس سالانہ لاگت 1200 امریکی ڈالر ہوگی۔
© UNICEF/Mihalis Gripiotis
افغانستان کے ایک سکول کے طلباء۔ اندازوں کے مطابق سال 2030 تک پائیدار ترقی کے حصول کی عالمی فی کس سالانہ لاگت 1200 امریکی ڈالر ہوگی۔

پائیدار ترقی کے حصول کی سالانہ لاگت کم از کم 5 ٹریلین ڈالر: انکٹاڈ

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے معاشی ماہرین نے بتایا ہے کہ اب سے 2030 تک پائیدار ترقی کے پرعزم اہداف کے حصول کی قیمت 5.4 تا 6.4 ٹریلین ڈالر سالانہ ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی انکٹاڈ (یو این سی ٹی اے ڈی) کے مطابق فی کس سالانہ کے حساب سے یہ رقم 1,179 سے 1,383 ڈالر تک بنتی ہے۔

Tweet URL

یہ اندازہ دنیا کی تین چوتھائی آبادی کا احاطہ کرنے والے 90 ممالک میں ایس ڈی جی سے متعلق 50 اشاریوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ 

دنیا کے 48 ترقی پذیر ممالک اگر موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی پر قابو پانا چاہتے ہیں تو انہیں 2030 تک سالانہ 337 بلین ڈالر درکار ہوں گے۔ 

اگر جائزے میں شامل 48 ممالک میں ایس ڈی جی کے حصول کے لیے ہر فرد کے حصے میں آنے والی رقم کو مدنظر رکھ کر  تمام ترقی پذیر معیشتوں کو دیکھا جائے تو انہیں ہر سال 6.9 تا 7.6 ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔ 

اختراعی سوچ 

اگرچہ محدود وسائل کے حامل ممالک کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے تاہم اس مسئلے کا حل تعلیم جیسے شعبوں کے لیے مالی وسائل مختص کرنے سے نکل سکتا ہے کیونکہ اس طرح صںفی مساوات کے فروغ، غربت میں کمی اور اختراع میں بھی مدد ملتی ہے اور یہ تمام پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) ہیں۔ 

انکٹاڈ میں شماریاتی شعبے کی سربراہ انو پیلٹولا نے کہا ہے کہ مالی وسائل میں معمولی اضافے سے کامیابی کی ضمانت نہیں ملے گی۔ حکومتوں، کمپنیوں، سرمایہ کاروں اور اداروں کو اپنے وسائل حکمت سے مختص اور خرچ کرنا ہوں گے۔ انہیں ہر ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مالی وسائل میں بچت اور احتیاط کی ضرورت نہیں۔ 

قرضوں کا بحران 

انکٹاڈ کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب اور 2030 کے درمیانی عرصہ میں دنیا کی امیر ترین معیشتیں متوقع طور پر ایس ڈی جی کے حصول پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات کا 80 فیصد ادا کریں گی۔ ان ممالک کو ان اہداف کے حصول کے لیے عموماً بلند ترین فی کس سالانہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور اس مد میں سب سے زیادہ مالیاتی فرق کا سامنا بھی انہی ممالک کو ہوتا ہے۔   

چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کو بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے جہاں صںفی مساوات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہر فرد کے حصے میں آنے والی رقم تقریباً 3,724 ڈالر ہے اور یہ اوسط عالمگیر ضرورت سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ 

اگرچہ کم ترین ترقی یافتہ ممالک اس مد میں فی کس سب سے کم قیمت ادا کریں گے تاہم ہر ملک کی مجموعی معاشی پیداوار (جی ڈی پی) کے فیصد کو مدنظر رکھا جائے تو یہ خاصی بڑی رقم بنتی ہے اور صرف تعلیم پر ہی انہیں 47 فیصد وسائل خرچ کرنا پڑیں گے۔ 

انکٹاڈ کے تجزیے سے استحکام پر خرچ کے حوالے سے قومی رحجانات میں بڑی کمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مشمولہ ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے یہ فرق 468 بلین ڈالر سالانہ ہے جو سب سے زیادہ ہے۔ اس کمی کو دور کرنےکے لیے سالانہ اخراجات میں 9 فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ 

تبدیلی کے شعبے 

اس سے برعکس سماجی تحفظ کو بہتر بنانے اور اچھے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے دنیا کی 48 ترقی پذیر معیشتوں کو نسبتاً کم اخراجات کرنا پڑیں گے جو 294 بلین ڈالر تک ہو سکتے ہیں جس کے لیے سالانہ اخراجات میں 6 فیصد اضافہ درکار  ہو گا۔ 

اس تجزیے میں پائیدار ترقی کے ذریعے تبدیلی کے لیے چھ راستوں کا بطور خاص تذکرہ ہے جن میں سماجی تحفظ اور اچھا روزگار، تعلیم میں تبدیلی لانا، غذائی نظام کو بہتر بنانا، موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانا، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی سے نمٹنا، قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی و مشمولہ ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔ 

یہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے اور محفوظ جنگلات کے رقبے میں اضافے سے لے کر دنیا میں ہر فرد کو بجلی اور انٹرنیٹ تک رسائی کی ضمانت دینے، خواندگی کے فروغ، بھوک پر قابو پانے اور شرح اموات میں کمی لانے تک بہت سے اشاریوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ 

'یو این سی ٹی اے ڈی' کی رپورٹ میں قرضوں کے عالمگیر بحران سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ تقریباً 3.3 بلین لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی عوامی ضروریات کے مقابلے میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں کہیں زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔