انسانی کہانیاں عالمی تناظر
کینال ہوٹل جو بغداد میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کر رہا تھا 2003 میں دہشتگردی کا نشانہ بنا۔

میری کہانی: یو این بغداد پر دہشتگردانہ حملے کی ’گہری نفسیاتی چوٹ‘

UN Photo
کینال ہوٹل جو بغداد میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کر رہا تھا 2003 میں دہشتگردی کا نشانہ بنا۔

میری کہانی: یو این بغداد پر دہشتگردانہ حملے کی ’گہری نفسیاتی چوٹ‘

امن اور سلامتی

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے عملے کے ایک سابق رکن ان بےپایاں نفسیاتی زخموں کے بارے میں بتاتے ہیں جو انہیں 2003 میں بغداد کے کینال ہوٹل میں اقوام متحدہ کے دفاتر پر دہشت گردی کے خوفناک حملے کے بعد سہنا پڑے۔

اب لکھاری اور صحافی کی حیثیت سے کام کرنے والے خالد منصور اُس وقت عراق میں 'ڈبلیو ایف پی‘ کے ترجمان تھے اور اس بم دھماکے میں بال بال بچے جس میں اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے ان کے 22 ساتھیوں کی جان چلی گئی تھی۔ 

اس حملے کی یاد میں ہر سال 19 اگست کو منائے جانے والے امدادی کارکنوں کے عالمی دن پر وہ اس واقعے کے بعد اپنی زندگی اور اس سے سیکھے گئے اسباق کے بارے میں بتاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارتر پر دہشت گرد حملے نے ایک جانب تو انہیں برباد کر دیا لیکن دوسری جانب اس سے ان کی اپنی زندگی اور انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں کے حوالے سے سوچ میں بھی بنیادی تبدیلی آئی۔

کینال ہوٹل دہشت گرد حملے کے وقت خالد منصور بغداد میں عالمی ادارہ خوراک کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔
UN Photo/Jean-Marc Ferré
کینال ہوٹل دہشت گرد حملے کے وقت خالد منصور بغداد میں عالمی ادارہ خوراک کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔

"جب یہ حملہ ہوا تو میں اپنی کار میں سوار ہو کر دفتر کی جانب واپس جا رہا تھا۔ جب میں دفتر کی عمارت سے چند سو میٹر ہی دور تھا تو اس پر حملہ ہوا اور وہ یکلخت منہدم ہو گئی۔ اگرچہ مجھے جسمانی طور پر کوئی نقصان نہ پہنچا لیکن مجھے لگنے والے نفسیاتی زخم بے پایاں تھے۔

میں نے چند ہی گھنٹے پہلے اپنے جن ساتھیوں کے ساتھ کام کیا تھا ان کے جسم یا تو دھماکے میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے تھے یا ان کی لاشیں پارکنگ میں چادروں تلے پڑی تھیں۔ میں اس وقت کو سوچ کر اب بھی خوف زدہ ہو جاتا ہوں جب گرد سے اٹی تاریک راہداریوں میں چلتے ہوئے میرے ہاتھ خون اور انسانی جسم کے حصوں سے ٹکرائے تھے۔ 

اس دوپہر کو باقی وقت میں نے اپنے ایک عراقی ساتھی کے ساتھ کار میں بغداد کا چکر لگا کر زخمیوں کا ان کے خاندانوں سے رابطہ کرواتے اور انہیں تسلی دیتے گزارا۔"

 خالد منصور کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انہیں اقوام متحدہ، احمق اور قاتل دہشت گردوں اور یہ سوچ کر خود پر بہت غصہ آیا کہ وہ زندہ کیوں ہیں جبکہ ان کے 22 دیگر ساتھیوں کی جان چلی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں مہینوں اور سالوں کی سائیکو تھراپی اور غوروفکر کے ذریعے اس کا اندازہ ہوا۔

"جب میں ماضی کو یاد کرتا ہوں تو زندگیوں اور صلاحیتوں کے اس بہت بڑے نقصان کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہو جاتا ہوں۔ لیکن میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے جس کی بدولت میں دوبارہ جنگ زندہ علاقوں میں کام کرنے اور یہ سوچنے کے قابل ہوا کہ اس واقعے کی وجوہات کیا تھیں اور آیا ان سے بچا جا سکتا تھا۔"

کئی ماہ تک کام سے دور رہنے اور اس بہت بڑے نقصان کا غم منانے کے بعد آہستہ آہستہ وہ اپنے معمول کی جانب واپس آ گئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے دو سال بعد 2006 میں بیروت میں اقوام متحدہ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا جب لبنان پر اسرائیل نے 33 روز تک بمباری کی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوبارہ ویسے ہی ہو گئے تھے جیسے 19 اگست 2003 کو اس حملے سے پہلے صبح کے وقت تھے۔ انہیں یہ بات پسند ہے کہ اب وہ مزید حساس اور بامروت شخص بن گئے اور امدادی کام کے محدودات اور حکمرانی کے بین الاقوامی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں مزید غوروفکر شروع کر دیا۔

"میں نے انسانی امداد کے پیچھے سیاسی مقاصد کے بارے میں اس قدر سوچا کہ 10 سال کے بعد میں نے اس موضوع پر گریجوایٹ طلبہ کے لیے ایک کورس بھی تیار کیا اور قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں اس کی تعلیم دی۔

کینال ہوٹل حملے میں خالد منصور کا دفتر تباہ ہو گیا تھا۔
© Khaled Mansour
کینال ہوٹل حملے میں خالد منصور کا دفتر تباہ ہو گیا تھا۔

2001 میں افغانستان میں امدادی سیاست نے مزید منظم صورت اختیار کر لی تھی اور 2002 میں عراق پر جنگ کی تیاریوں کے مہینوں میں یہ مزید گہری ہو گئی۔ اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جیسا کہ ہم گزشتہ 20 برس میں شام، یمن، افغانستان، اسرائیل۔فلسطین، میانمار اور دیگر جگہوں پر تباہی کے دوران دیکھ چکے ہیں۔"

خالد کا کہنا ہے کہ مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں رائے عامہ کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے خلاف دیکھ کر حیرانی نہیں ہونی چاہیے جن پر الزام ہے کہ وہ مغرب کا آلہ کار بن چکے ہیں۔ 

اس کا مقصد دہشت گرد گروہوں کی فاسقانہ حکمت عملی کا عذر یا اس کا جواز پیش کرنا ہر گز نہیں بلکہ یہ اس ماحول کو سمجھنے کی کوشش ہے جس میں یہ گروہ لوگوں کو بھرتی کرتے اور اپنا کام کرتے ہیں۔ 

اس کا مقصد ایک جانب عالمی برادری کے سیاسی منصوبوں اور دوسری جانب مسلح گروہوں (یا ریاستوں) کے مابین کچلے جانے والے معصوم لوگوں پر اس کے منفی اثرات کو اجاگر کرنا بھی ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو اپنے زیراثر رکھتے ہیں۔"

مثالیت پسند اور حقیقت پسند 

خالد منصور کے مطابق امدادی کارکن مثالیت پسند نہیں ہوتے اور ان میں بہت سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ ان کے کام کو کیسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کیسے اس میں ان کی اپنی زندگیاں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ امدادی کارکنوں میں کئی انتہائی حقیقت پسند لوگ بہت سے جنگ زدہ علاقوں میں اپنے حالات کو غیرمستحکم پاتے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ عطیات دینے کے طریقہ کار اور حکمرانی کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات کے ذریعے امدادی اصولوں کو بحال کرنے اور امدادی شعبے میں مزید شفافیت لانے کی فوری ضرورت ہے۔

"ہمیں اس اعلیٰ مقصد کو محض رسمی ذریعہ بننے سے بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں جلد ہی یہ ذریعہ بیکار ہو جائے گا اور بغداد اور اس کے بعد دنیا میں بہت سی دیگر جگہوں پر امدادی کارکنوں کی اموات کی محض اتفاقی نقصان سے زیادہ حیثیت نہیں رہے گی۔ 

خالد منصور کہتے ہیں کہ امدادی کارکنوں اور امدادی اداروں کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنا بغداد میں ہونے والی خونریزی کو 20 سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں ہونے والی تقریبات کے مقابلے میں ان کے جان دینے والے ساتھیوں کے لیے حقیقی خراج تحسین ہو گا۔

اقوام متحدہ کے صدر دفتر نیو یارک کا عملہ کینال ہوٹل دہشتگردانہ حملے کے متاثرین کی یاد میں اکٹھے ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
اقوام متحدہ کے صدر دفتر نیو یارک کا عملہ کینال ہوٹل دہشتگردانہ حملے کے متاثرین کی یاد میں اکٹھے ہیں۔