انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عراق: ’جبری گمشدگیوں‘ کے خاتمے کے لیے نئے قوانین کا مطالبہ

ایک عراقی خاتون اپنے شوہر کی تصویر کے ساتھ جسے ’گمشدہ‘ ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔
© ICRC/Mohammad Jawad Alhamzah
ایک عراقی خاتون اپنے شوہر کی تصویر کے ساتھ جسے ’گمشدہ‘ ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔

عراق: ’جبری گمشدگیوں‘ کے خاتمے کے لیے نئے قوانین کا مطالبہ

انسانی حقوق

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ عراق میں پانچ دہائیوں میں تقریباً دس لاکھ افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور یہ بحران اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے 'اس وحشیانہ جرم' کی تحقیقات اور اس کےخاتمے کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ اپیل جبری گمشدگیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ سامنے آنے کے بعد کی گئی ہے جس نے نومبر میں ملک کا دورہ کیا تھا۔

اس رپورٹ میں عراق میں ''گمشدگیوں کے پانچ ادوار'' کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں لوگوں کو جبراً لاپتہ کیے جانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ 1968 سے 2003 تک بعث پارٹی کے دور اقتدار کا احاطہ کرتی ہے جب ملک میں صدام حسین کی آمرانہ حکومت قائم تھی، اور  2018 سے 2020 تک حکومت مخالف احتجاج کے حوالے سے پیش آنے والے گمشدگیوں کے واقعات سے بھی آگاہ کرتی ہے۔

عراقی شہر سنجر جو داعش سے لڑائی کے نتیجے میں کھنڈر بن چکا ہے۔
Unsplash/Levi Meir Clancy
عراقی شہر سنجر جو داعش سے لڑائی کے نتیجے میں کھنڈر بن چکا ہے۔

گمشدہ بچے

اس معاملے میں ایک عام رحجان بچوں کی مبینہ طور پر جبری گمشدگی سے متعلق ہے جن میں خاص طور پر یزیدی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایسے بچے شامل ہیں جو شدت پسند گروہ آئی ایس آئی ایل یا داعش کے زیر انتظام کیمپوں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔

کمیٹی کے علم میں آیا کہ بعض واقعات میں ماؤں کو عراق واپسی کے بعد اپنے بچے یتیم خانوں میں چھوڑنا پڑے اور وہ انہیں جلد از جلد اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں۔

تاہم جب وہ اپنے بچوں کو لینے کے لیے پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے بچے کسی اور خاندان کو دے دیے گئے ہیں اور اس میں مبینہ طور پر بعض ریاستی حکام کا براہ راست کردار تھا۔

بہت بڑا مسئلہ

کمیٹی کا کہنا ہے کہ سینکڑوں خاندان تاحال اپنے رشتہ داروں کو ترکیہ، شام یا ایران کے کیمپوں میں بھی تلاش کر رہے ہیں ''جہاں بیرونی دنیا سے رابطہ کرنا ناممکن ہے۔''

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے مسلح تنازعات اور سیاسی تشدد کے بعد گمشدگیاں بشمول لوگوں کو جبراً لاپتہ کیے جانے کے واقعات ''عراق میں بہت بڑا مسئلہ'' بن چکے ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق 1968 سے اب تک 250,000 سے 1,000,000 تک افراد لاپتہ ہو چکے ہیں تاہم اس حوالے سے مزید درست اعدادوشمار مہیا کرنا ناممکن ہے۔

داعش کے ہاتھوں اغواء اور ظلم کا نشانہ بننے والی ایک خاتون عراق کے علاقے اکرے میں ایک کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
Giles Clarke/ Getty Images Reportage
داعش کے ہاتھوں اغواء اور ظلم کا نشانہ بننے والی ایک خاتون عراق کے علاقے اکرے میں ایک کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

گمشدگیوں کے پانچ ادوار

رپورٹ کے مطابق وفاقی عراق اور کردستان خطے میں بعث پارٹی کے دور اقتدار میں تقریباً ایک لاکھ کردوں سمیت اندازاً 290,000 افراد کو عراقی کردستان میں صدام حسین کی نسل کشی کی مہم میں جبراً لاپتہ کیا گیا۔

گمشدگیوں کا دوسرا ادور 2003 میں عراق پر حملے اور اس کے بعد ملک پر قبضے سے لے کر قبل از داعش دورانیے پر مشتمل ہے۔ اس دوران امریکہ کی فوج اور اتحادیوں نے کم از کم 200,000 عراقیوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے 96,000 افراد بعض مواقع پر امریکہ یا برطانیہ کے زیرانتظام قیدخانوں میں رکھے گئے تھے۔

کمیٹی کا کہنا ہے کہ ''مبینہ طور پر ان قیدیوں کو باغیانہ کارروائیوں میں شمولیت کے الزام میں وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر قیدی ایسے شہری تھے جو بے گناہ ہونے کے باوجود شبے میں دھر لیے گئے۔''

داعش کے مظالم

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014 اور 2017 کے درمیانی عرصہ میں کیسے داعش کی اعلان کردہ اسلامی خلافت بشمول عراق کے بہت بڑے حصے میں عراقی فوجیوں یا سکیورٹی فورسز کے ارکان کے اغوا اور اجتماعی ہلاکتوں کے نئے ادوار دیکھے گئے۔

یہ صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب 'پاپولر موبلائزیشن فورسز' (پی ایم ایف) نے بڑے شہروں کو شدت پسندوں سے واپس لینے کے لیے فوجی کارروائیوں شروع کیں جن میں حکومت نواز فورسز نے سنی عربوں خصوصاً مردوں اور لڑکوں کو ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کیا۔

مزید جبری گمشدگیاں 2018 سے 2020 تک عوامی احتجاج کی لہر کے دوران ہوئیں جب ہزاروں افراد بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

ماں اور بچے عراقی شہر بابل کے ’الشہدا سٹیڈیم‘ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ یادگار اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
© UNICEF/Wathiq Khuzaie
ماں اور بچے عراقی شہر بابل کے ’الشہدا سٹیڈیم‘ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ یادگار اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

قانون سازی اور تحقیقات

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے عراقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کو قومی قانون سازی میں ایک علیحدہ جرم کے طور پر شامل کرے کیونکہ فی الوقت ایسے واقعات پر قانونی کارروائی نہیں ہوتی۔

کمیٹی کے ارکان نے گمشدگیوں کے تمام واقعات میں تلاش اور تحقیقات کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کے لیے بھی کہا ہے اور حکام پر زور دیا ہے کہ وہ قومی فارنزک تحقیقات کو بہتر بنائیں اور اس کے دائرہ کار میں وسعت لائیں۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی

جبری گمشدگیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مقرر کی تھی۔ یہ غیرجانبدار ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہیں اور وہ اپنے کام کا کوئی معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔