انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سائنس کی مدد سے روایتی ادویات کی افادیت بڑھانے پر کانفرنس

ویتنام میں بہت سارے لوگ روایتی ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن کے 90 فیصد اجزا جنگلوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
UN-REDD/Leona Liu
ویتنام میں بہت سارے لوگ روایتی ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن کے 90 فیصد اجزا جنگلوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

سائنس کی مدد سے روایتی ادویات کی افادیت بڑھانے پر کانفرنس

صحت

روایتی ادویات کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کی پہلی عالمی کانفرنس اس ہفتے انڈیا کے شہر گاندھی نگر میں شروع ہو رہی ہے جس میں ان ادویات کی افادیت کے حوالے سے ثبوتوں اور اس شعبے میں بہترین طریقہ ہائے کار کے تبادلے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز اہڈہانوم گیبریاسس نے انسانی صحت کے لیے روایتی ادویات کے بے پایاں فوائد اور صحت و ماحول کے مابین قریبی تعلق کے حوالے سے اس کی تفہیم کو واضح کیا۔

Tweet URL

انہوں نے قدیم دانائی اور جدید سائنس کو لوگوں اور کرہ ارض کی صحت و بہتری کے لیے یکجا کرنے کی خاطر جمع ہونے کی اہمیت بیان کی۔ 

ان کی بات کو دہراتے ہوئے عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹی او) کی ڈائریکٹر جنرل گوزی اوکونجو آئیویلا نے کہا کہ روایتی ادویات جدید دواؤں کی ضد نہیں بلکہ ان میں مزید بہتری لاتی ہیں۔ 

جدید ادویہ کے قدیم ماخذ 

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے روایتی ادویات کو انسانیت جتنا ہی قدیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ علاج کے قدیم طریقہ کار ہی بہت سی جدید ادویات کے ماخذ ہیں۔ 

اس حوالے سے انہوں نے بید کے درخت کی چھال کو بطور مثال پیش کیا جسے 3,500 سال پہلے سومیری اور مصری تہذیب کے لوگ درد اور جلن کے خاتمے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد 1897 میں کیمیا دان فیلکس ہوفمین نے اسپرین تیار کی جسے وقت کے ساتھ مزید بہتر بنایا گیا اور اب یہ دوا روزانہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے کام آتی ہے۔ 

انہوں نے 1971 میں ملیریا کے علاج میں پیش رفت کا حوالہ بھی دیا جب چین کے تو یویو نے روایتی چینی طبی تحریروں میں کئی طرح کے بخار کے علاج کے لیے میٹھی جڑی بوٹی افسنتین کے استعمال کے بارے میں پڑھا۔ اسی طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ٹیم نے اس جڑی بوڑی سے افسنتینی مرکب کو الگ کیا جس کا اب ملیریا کے علاج میں اہم ترین کردار ہے۔ 

روایتی ادویہ کی بڑھتی ہوئی طلب 

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ روایتی ادویات اب ماضی کی شے نہیں رہیں بلکہ دنیا بھر میں ان کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے ذہنی صحت، صحت مند بڑھاپے اور غیرمتعدی بیماریوں کی روک تھام اور علاج کے ضمن میں ان ادویات کی اہمیت کو واضح کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے لیے نیا شعبہ نہیں ہے اور یاد دلایا کہ 2014 میں ادارے کے رکن ممالک نے روایتی ادویات کے حوالے سے ادارے کی پہلی دس سالہ حکمت عملی کی منظوری دی تھی اور ایسی دوسری حکمت عملی 2025 میں تیار کی جانا ہے۔ 

روایتی اور جدید ادویات کا انضمام 

حالیہ کانفرنس اور گزشتہ برس انڈیا کے شہر جام نگر میں شروع ہونے والے ڈبلیو ایچ او کے عالمی مرکز برائے روایتی ادویہ کے ذریعے ادارہ ان دواؤں سے محفوظ، سستے اور مساوی علاج سے متعلق آگاہی پر مبنی پالیسیاں، معیارات اور ضوابط وضع کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ 

انہوں نے ممالک پر زور دیا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ روایتی اور تکمیلی ادویات کو اپنے نظام ہائے صحت میں بہتر طور سے کیسے شامل کیا جا سکتا ہے اور سائنس و اختراع کے ذریعے ان دواؤں کی طاقت کو کیسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ 

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ اس کانفرنس کے اختتام پر متوقع طور پر منظور کیے جانے والے گجرات اعلامیے میں روایتی ادویات کے ممالک کی جانب سے فراہم طبی خدمات میں موزوں طریقے سے انضمام میں مدد مل سکتی ہے۔ 

سائنسی توثیق 

ڈبلیو ایچ او نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ اس کے کام کا مقصد روایتی ادویات کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں ثبوت اور سائنسی توثیق کو سامنے لانا ہے تاکہ دنیا بھر میں انہیں استعمال کرنے والے لاکھوں لوگ یہ جان سکیں کہ آیا ان کا استعمال محفوظ و موثر ہے اور کیا انہیں بہتر تحفظ حاصل ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ سائنسی توثیق کے بعد روایتی ادویات میں دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے لیے طبی خدمات تک رسائی کے مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔