انسانی کہانیاں عالمی تناظر

برکینا فاسو میں متشدد انتہا پسندی کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی

برکینا فاسو میں پرتشدد کارروائیوں سے بچ نکلنے والے لوگ ہمسایہ ملک کوٹ ڈووار پہنچے ہوئے ہیں۔
© UNHCR/Insa Wawa Diatta
برکینا فاسو میں پرتشدد کارروائیوں سے بچ نکلنے والے لوگ ہمسایہ ملک کوٹ ڈووار پہنچے ہوئے ہیں۔

برکینا فاسو میں متشدد انتہا پسندی کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے امور سے متعلق ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ برکینا فاسو میں شدت پسند گروہوں کے حملوں سے جان بچا کر نکلنے والے لوگوں کو ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے کی اجازت دی جائے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کو برکینا فاسو میں واپس نہ بھیجا جائے جہاں تشدد بڑھ رہا ہے اور حقوق کی ہولناک پامالیاں ہو رہی ہیں۔

Tweet URL

بین الاقوامی تحفظ سے متعلق 'یو این ایچ سی آر' کی ڈائریکٹر الزبتھ ٹین نے کہا ہے کہ ادارہ تمام ممالک سے ہنگامی اپیل کرتا ہے کہ وہ برکینا فاسو کے مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کو جبراً واپس بھیجنے سے پرہیز کریں جہاں اس وقت بحرانی کیفیت ہے۔

جینیوا میں بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ہلاکتیں، جبری گمشدگیاں، تشدد اور بہت سے واقعات میں شہریوں کو ہدف بنائے جانے اور ان کی ہلاکتوں کا نتیجہ بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

ضروریات میں اضافہ 

'یو این ایچ سی آر' کی عہدیدار نے واضح کیا کہ 2015 سے امدادی ادارے برکینا فاسو میں غیرریاستی مسلح گروہوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اندرون ملک نقل مکانی کی بابت خبردار کر چکے ہیں تاہم 2022 میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کی وجہ شدت پسند اور متشدد گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور انسانی ضروریات ہیں۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق ملک بھر میں 4.7 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کے 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔ 

تشدد اور مسلح لڑائیوں کے نتیجے میں اہم تنصیبات بھی تباہ ہوئی ہیں اور لڑائی سے متاثرہ علاقوں سمیت بہت سی جگہوں پر ریاستی خدمات اور ادارے متاثر ہوئے ہیں۔

متشدد شدت پسند گروہوں کے گھیرے میں موجود علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے حالات خاص طور پر خراب ہیں جن میں اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ 

بچوں کے خلاف کارروائیاں 

الزبتھ ٹین نے معمول کی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات میں بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا جنہیں مسلح گروہوں کی جانب سے جبری بھرتیوں، بچہ مزدوری اور دیگر طرح کے تشدد، بدسلوکی، استحصال اور صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔ 

نومبر 2021 میں بند ہونے والے سکولوں کی تعداد 3,000 تھی جو مارچ 2023 میں 6,334 تک پہنچ گئی۔ 

بے گھر ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد سکول نہیں جا سکتی۔ قبل از وقت اور نوعمری کی شادی عام ہے اور جبری شادیوں کی اطلاعات متواتر سامنے آ رہی ہیں۔ اندازے کے مطابق برکینا فاسو میں نصف بچے صنفی بنیاد پر تشدد یا بدسلوکی کا شکار ہیں جن میں تقریباً 82 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ 

ملک میں جاری تشدد اور اس کے نتیجے میں نقل مکانی سے بہت سی خواتین جنسی تشدد کے سامنے غیرمحفوظ ہیں اور ان حالات میں متاثرین کے لیے خدمات کی دستیابی بھی محدود ہو گئی ہے۔

برکینا فاسو سے پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ملک ٹوگو پہنچنے والے افراد کا سرحد پر اندراج کیا جا رہا ہے۔
© UNHCR/Fidélia Bohissou
برکینا فاسو سے پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ملک ٹوگو پہنچنے والے افراد کا سرحد پر اندراج کیا جا رہا ہے۔

سرحد پار پناہ 

برکینا فاسو میں رواں برس جون تک اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد دو ملین سے زیادہ ہو چکی تھی اور اس طرح یہ براعظم افریقہ میں اندرون ملک بے گھری کا ایک بدترین بحران بن گیا ہے۔ الزبتھ ٹین نے مزید بتایا کہ 67,000 شہریوں نے ہمسایہ ممالک مالی، نیجر، آئیوری کوسٹ، ٹوگو، بینن اور گھانا میں پناہ لے رکھی ہے۔ 

اندازوں کے مطابق ملک میں جاری لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو مسلح گروہوں کی جانب سے بدسلوکی کا خطرہ درپیش ہے جس میں انہیں کوڑے مارے جانے اور دیہات سے نقل مکانی کے دوران جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ 

'یو این ایچ سی آر' کی عہدیدار نے کہا کہ اسی لیے پناہ گزینوں کو واپس نہ بھیجنے کے اصول کا احترام کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ایسے علاقوں میں جبراً واپس نہ بھیجا جائے جہاں ان کی زندگیوں، آزادی یا انسانی حقوق کو خطرہ ہو۔ اسی لیے ادارہ تمام ممالک سے کہتا ہے کہ وہ برکینا فاسو سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو اپنے علاقوں تک رسائی مہیا کریں۔