انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ناکارہ نظام ہائے خوراک کو بدلنے کی ضرورت ہے: انتونیو گوتیرش

انڈیا کے علاقے وساخاپٹنم میں خشک مچھلی کے ایک بازار کا منظر۔
© FAO/Harsha Vadlamani
انڈیا کے علاقے وساخاپٹنم میں خشک مچھلی کے ایک بازار کا منظر۔

ناکارہ نظام ہائے خوراک کو بدلنے کی ضرورت ہے: انتونیو گوتیرش

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے عالمگیر بھوک پر قابو پانے، کاروباروں اور حکومتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے اور غذائی پیداوار پر متواتر موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات میں کمی لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

روم میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام 'نظام ہائے خوراک سے متعلق کانفرنس + 2 جائزے کا موقع' سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ دنیا میں وسائل کی فراوانی ہے لیکن اس کے باجود لوگوں کا متواتر تکالیف سہنا اور بھوکوں مرنا شرمناک ہے۔

Tweet URL

شکستہ نظام 

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 780 ملین سے زیادہ لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والی تمام خوراک کا تقریباً ایک تہائی برباد یا ضائع ہو جاتا ہے اور تقریباً تین بلین لوگ صحت مند غذا کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔ 

اس حوالے سے ترقی پذیر ممالک کو اضافی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ محدود وسائل اور قرضوں کا بوجھ انہیں ایسے نظام ہائے خوراک پر ضروری سرمایہ کاری سے روکتے ہیں جن سے پورے سماجی پیمانے پر غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔ 

موسمیاتی بحران کے پیچھے خوراک کی غیرمستحکم انداز میں پیداوار، پیکیجنگ اور صَرف کا بھی کردار ہے اور یہ شعبے دنیا بھر میں ایک تہائی گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کے اخراج، دنیا میں تازہ پانی کے 70 فیصد استعمال اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ 

اناج معاہدے کے خاتمے سے بدحال لوگوں کا نقصان

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ روس کی جانب سے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی برآمد کے معاہدے کے حالیہ خاتمے سے یہ صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ 

اس معاہدے نے یوکرین کی بندرگاہوں سے لاکھوں ٹن خوراک کی برآمد ممکن بنائی اور اقوام متحدہ کی جانب سے روس کے ساتھ اس کے ہاں پیدا ہونے والی خوراک اور کھادوں کی برآمد کے ایک متوازی معاہدے سمیت ان دونوں اقدامات نے عالمگیر غذائی تحفط اور قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ بحیرہ اسود کے راستے اناج کی برآمد کے معاہدے کے خاتمے سے انتہائی بدحال لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمگیر غذائی تحفظ برقرار رکھنے میں روس اور یوکرین دونوں کا اہم کردار ہے اور ماسکو اس فیصلے کو واپس لے۔ 

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ممالک سے خوراک اور کھادوں کی عالمی منڈیوں تک بلاروک و ٹوک رسائی ممکن بنانے اور ہر انسان کو غذائی تحفظ مہیا کرنے کے لیے بدستور پُرعزم ہیں جو اس کا حق دار ہے۔ 

عملی اقدامات کے تین شعبے 

سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں اس حوالے سے عملی اقدامات کے لیے تین شعبوں کا حوالہ دیا۔ پہلی بات یہ کہ پائیدار نظام ہائے خوراک پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ نظام ہائے خوراک پر سرمایہ کاری نہ ہونے کا عملی مطلب لوگوں کو بھوکا مارنا ہے۔ انہوں ںے حکومتوں سے کہا کہ وہ ایس ڈی جی کے حصول کی رفتار بڑھانے کے ایک اقدام پر عمل کریں جس کی رو سے اس معاملے میں تمام ضرورت مند ممالک کو طویل مدتی مالی وسائل کی فراہمی کے لیے سالانہ کم از کم 500 بلین ڈالر جمع کیے جانا ہیں۔ 

دوسرے شعبے کا تذکرہ کرتے ہوئے انتونیو گوتیرش نےحکومتوں اور کاروباروں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور نظام ہائے خوراک وضع کرنے میں منافع پر لوگوں کو ترجیح دیں۔ 

اس میں تمام افراد کے لیے تازہ اور صحت بخش خوراک کی دستیابی میں اضافہ کرنے، منڈیوں کو کھلا رکھنے اور تجارتی رکاوٹوں اور برآمدی پابندیوں کا خاتمہ کرنے کے نئے طریقوں کا کھوج لگانا بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونژو روم میں ادارے کے صدر دفتر پہنچنے پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا استقبال کر رہے ہیں۔
UN Photo/Pier Paolo Cito
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونژو روم میں ادارے کے صدر دفتر پہنچنے پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا استقبال کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی استحکام

سیکرٹری جنرل نے کاربن کے اخراج میں کمی لانے اور عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد تک رکھنے کے ساتھ ایسے نظام ہائے خوراک وضع کرنے کے لیے بھی کہا جن سے خوراک کی تیاری، پیکیجنگ اور اس کی ترسیل کے عمل میں کابن کا اخراج کم سے کم رکھنے میں مدد ملے۔ 

انہوں نے کہا کہ خوراک کی تیاری اور زرعی سرگرمیوں میں زمین، پانی اور دیگر وسائل کا ناپائیدار استعمال محدود رکھنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے موسمیاتی بحران پر قابو پانے اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے 2040 اور ترقی پذیر ممالک کی طرف سے 2050 تک نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کرنے کی غرض سے مضبوط اور تیز تر اقدامات پر زور دیا۔ 

کانفرنس میں کیا ہو گا؟

24 تا 26 جولائی اقوام متحدہ کے زیراہتمام 'نظام ہائے خوراک سے متعلق کانفرنس + 2 جائزے کا موقع' میں 160 ممالک سے 2,000 سے زیادہ شرکا نظام ہائے خوراک کے بارے میں 2021 میں ہونے والی پہلی کانفرنس میں کیے گئے وعدوں پر پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ علاوہ ازیں شرکا اس حوالے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں ترجیحات کا ازسرنو تعین کرتے ہوئے اپنی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کریں گے۔ 

کانفرنس میں خوراک کے ضیاع، موسمیاتی تبدیلی، صحت بخش خوراک، شراکتوں، سائنس و ٹیکنالوجی، قدیمی باشندوں کے علم اور خوراک کی نقل و حمل کے حوالے سے زرعی غذائی نظام میں تبدیلی لانے سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاسوں، بات چیت کے ادوار اور ذیلی اجلاسوں کا سلسلہ بھی شامل ہے۔