انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کی اکثریت وسیع صنفی تفاوت کے حامل ممالک میں رہتی ہے: رپورٹ

اردن کے ایک آئی ٹی سنٹر میں زیر تربیت نوجوان خواتین۔
© UNICEF/Thaulow
اردن کے ایک آئی ٹی سنٹر میں زیر تربیت نوجوان خواتین۔

خواتین کی اکثریت وسیع صنفی تفاوت کے حامل ممالک میں رہتی ہے: رپورٹ

خواتین

صنفی مساوات اور بین الاقوامی ترقی کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے شائع کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین کی کم اختیاری اور بڑے پیمانے پر صنفی فرق عام ہے۔

یو این ویمن اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ (یو این ڈی پی) کی اس رپورٹ میں 114 ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جن میں سے کسی ایک میں بھی مکمل صںفی مساوات نہیں پائی جاتی۔

Tweet URL

مزید برآں، دنیا بھر میں ایک فیصد سے بھی کم خواتین اور لڑکیاں ایسے ممالک میں رہتی ہیں جہاں خواتین بہت زیادہ بااختیار ہیں اور صحت و تعلیم کے شعبے میں صنفی فرق بھی بہت کم ہے۔ 

3.1 بلین خواتین اور لڑکیاں یا دنیا میں خواتین کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جہاں خواتین بہت کم حد تک بااختیار ہیں اور صنفی فرق بہت بڑا ہے۔ 

اختیار اور عدم مساوات

یہ رپورٹ دنیا بھر میں خواتین کو درپیش پیچیدہ مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے دو نئے اشاریے متعارف کراتی ہے اور اس حوالے سے مخصوص اقدامات اور پالیسی سے متعلق اصلاحات کے لیے لائحہ عمل مہیا کرتی ہے۔ 

خواتین کی بااختیاری سے متعلق اشاریہ (ڈبلیو ای آئی) صحت، تعلیم، شمولیت، فیصلہ سازی اور خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات میں فیصلے لینے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے خواتین کی طاقت اور آزادی کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے۔ 

عالمگیر صنفی مساوات سے متعلق اشاریہ (جی جی پی آئی) انسانی ترقی بشمول صحت، تعلیم، شمولیت اور فیصلہ سازی کے حوالے سے صنفی فرق کا اندازہ مہیا کرتا ہے۔ 

'ڈبلیو ای آئی' کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کو اپنی مکمل صلاحیتوں سے اوسطاً صرف 60 فیصد تک کام لینے کا اختیار ہے۔ انسانی ترقی کے اہم پہلوؤں کو دیکھا جائے تو وہ مردوں کے مقابلے میں اوسطاً 28 فیصد کم بااختیار ہیں۔

بے اختیار خواتین

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اختیار کے حوالے سے یہ کمی اور عدم مساوات ناصرف خواتین کی بہبود و ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ اس سے مجموعی انسانی ترقی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ 

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے تحت صنفی مساوات اور خواتین کی ترقی کے حوالے سے عالمی برادری کے مضبوط عزم کی یاد دہانی کرائی ہے۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ نئے اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ خواتین تاحال اپنی پوری صلاحیتوں سے کام نہیں لے پاتیں اور بڑے پیمانے پر صنفی فرق بدستور موجود ہے جس کے باعث پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی جانب پیش رفت کی رفتار سست ہے اور اس میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ صںفی مساوات کا وعدہ پورا کرنے، خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کو محفوظ بنانے اور انہیں مکمل بنیادی آزادیوں کی یقینی فراہمی کے لیے پائیدار کوششوں کی ضرورت ہے۔ 

حقیقی تبدیلی 

اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت، تعلیم، کام اور روزمرہ زندگی میں توازن، خاندانوں کی مدد اور خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے پالیسی سے متعلق جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں دنیا کو مزید مساوی اور مشمولہ بنانے کی کوششوں کی رفتار تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ 

'یو این ڈی پی' کے سربراہ ایکم سٹینر کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین اور لڑکیاں ایسے ممالک میں رہتی ہیں جو انہیں ان کی صلاحیتوں سے کام لینے کا معمولی سا موقع ہی فراہم کرتے ہیں اور یہ نئے اشاریے حقیقی لوگوں کے لیے حقیقی تبدیلی لانے میں مدد دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔