انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پُرخطر سمندری سفروں میں مہاجر بچوں کی اموات پر دنیا کی ’چشم پوشی‘

وسطی بحیرہ روم میں واقع اٹلی کا جزیرہ لمپیڈوسا عام طور پر وہ پہلا مقام ہے جہاں یورپ کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشی لوگ پہنچتے ہیں۔
© UNICEF
وسطی بحیرہ روم میں واقع اٹلی کا جزیرہ لمپیڈوسا عام طور پر وہ پہلا مقام ہے جہاں یورپ کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشی لوگ پہنچتے ہیں۔

پُرخطر سمندری سفروں میں مہاجر بچوں کی اموات پر دنیا کی ’چشم پوشی‘

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے نصف میں 289 لڑکے اور لڑکیاں یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ 2022 میں اسی عرصہ کے دوران اس راستے پر ہلاک ہونے والے بچوں سے دو گنا بڑی تعداد ہے۔

مہاجرت اور نقل مکانی کے بارے میں ادارے کے عالمی امور کی سربراہ ویرا ناؤس نے جنیوا میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس حساب سے رواں سال اب تک ہر ہفتے 11 بچے ہلاک ہوئے اور یہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مقابلے میں بہت بڑے اعدادوشمار ہیں۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے متواتر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جب چھ ماہ میں 300 بچے، گویا ان سے بھرا پورا جہاز یورپ اور افریقہ کے درمیان ڈوب جائے تو خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔ 

بے یارومددگار بچے 

تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عوامل بڑی تعداد میں بچوں کو شمالی فریقہ سے یورپ کے خطرناک سمندری سفر پر مجبور کر رہے ہیں۔

یونیسف کا اندازہ ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں 11,600 بچوں نے یہ سمندری سفر اختیار کیا اور یہ بھی 2022 میں اسی عرصہ کے دوران اس راستے پر سفر کرنے والے بچوں سے تقریباً دو گنا زیادہ تعداد ہے۔ 

تاہم ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ وسطی بحیرہ روم میں کشتیوں کے متعدد حادثوں میں کوئی فرد زندہ نہیں بچا یا ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ 

یونیسف کا مزید اندازہ ہے کہ بہت سے بچے اپنے والدین یا سرپرستوں کے بغیر یہ سمندری راستہ عبور کرتے ہیں جن میں اکیلے سفر کرنے والی لڑکیاں بھی شامل ہیں جو سفر کے دوران تشدد کے سامنے خاص طور پر غیرمحفوظ ہوتی ہیں۔ 

سال کے پہلے تین مہینوں میں 3,300 اکیلے یا اپنے والدین اور سرپرستوں سے بچھڑ جانے والے بچے وسطی بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچے جو یہ سفر کرنے والے مجموعی بچوں کی 70 فیصد تعداد ہے۔ 

بچوں کے تحفظ میں بہتری کے اقدامات 

اس بڑھتے ہوئے بحران کے ردعمل میں یونیسف دنیا بھر کے ممالک کو بچوں کی حفاظت، سماجی تحفظ اور مہاجرت اور پناہ کے حصول کے نظام مضبوط بنانے میں مدد دے رہا ہے۔ ادارے کا عملہ بھی حکومتوں کے ساتھ مل کر تمام بچوں کو ان کی یا ان کے والدین کی قانونی حیثیت سے قطع نظر مدد اور مشمولہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ 

ویرا ناؤس کا کہنا ہے کہ یہ اموات روکی جا سکتی ہیں۔ ان کے پیچھے بچوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرنے والے پیچیدہ ہنگامی حالات، تنازعات اور موسمیاتی خطرات کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ پناہ تک محفوظ رسائی ممکن بنانے اور بچوں کے پس منظر اور طریقہ سفر سے قطع نظر ان کے حقوق اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے سیاسی اور عملی اقدام کے فقدان کا ہوتا ہے۔ 

سمندروں میں زندگی کا تحفظ 

خطے کے ممالک اور یورپی یونین (ای یو) کو چاہیےکہ وہ بچوں کو سمندر کے علاوہ ان کے اپنے ممالک، عبوری مقامات اور ان کی منازل پر تحفظ دینے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ 

انہوں نے تحفظ اور والدین کے ساتھ یکجا ہونے کی خاطر بچوں کے لیے محفوظ، قانونی اور قابل رسائی راستوں کی ضرورت پر بھی زور دیا جس میں خاندان کی یکجائی سے متعلق خدمات میں وسعت دینے، پناہ گزینوں کی آباد کاری یا امدادی ویزوں کی فراہمی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔