انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار میں جبر اور ظلم کا خاتمہ ہونا چاہیے: وولکر ترک

جنوری 2022 میں ایک ماں اپنی ایک سالہ بچی کے ساتھ ایک ہفتے پیدل مسافت طے کر کے میانمار کی مشرقی ریاست کیا (کرینی) کے راستے تھائی لینڈ کی سرحد پر پہنچی ہیں۔
© UNOCHA/Siegfried Modola
جنوری 2022 میں ایک ماں اپنی ایک سالہ بچی کے ساتھ ایک ہفتے پیدل مسافت طے کر کے میانمار کی مشرقی ریاست کیا (کرینی) کے راستے تھائی لینڈ کی سرحد پر پہنچی ہیں۔

میانمار میں جبر اور ظلم کا خاتمہ ہونا چاہیے: وولکر ترک

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے انسانی حقوق کونسل کو بتایا ہے کہ میانمار میں حکومت کی جانب سے شہریوں کے خلاف سفاکانہ تشدد اور تحفظِ زندگی کے لیے امداد مہیا کرنے کی اجازت نہ دینے سے انسانیت کی کلی توہین کی عکاسی ہوتی ہے۔

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے میانمار میں شہریوں کے حقوق کی متواتر ہولناک پامالیوں کے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں اجتماعی ہلاکتیں، ماورائے عدالت قتل اور لوگوں کے سر تن سے جدا کیے جانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔

Tweet URL

اسی دوران ریاست راخائن میں بھی فوج کے مظالم جاری ہیں جہاں روہنگیا اقلیت کو شہریت سے محروم رکھا گیا ہے۔ 

کونسل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوجی حکمرانوں کو مظالم کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے جنہوں نے فروری 2021 میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ میانمار کی صورتحال کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (آئی سی سی) کے سامنے رکھنے پر غور کریں۔ اس کے علاوہ مختلف مسلح گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے ممکنہ جرائم پر ان کا احتساب یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ 

بدترین تشدد اور روح فرسا حالات

ہائی کمشنر نے کہا کہ ملک متواتر تشدد اور روح فرسا حالات کی گہرائی میں گرتا جا رہا ہے۔ 

جہاں کبھی مزید پُرامن اور خوشحال مستقبل کی امیدیں تھیں وہاں اب شہری لاپرواہ فوجی حکمرانوں کے تابع زندگی گزار رہے ہیں جن کے اقتدار کا دارومدار خوف اور دہشت کے ذریعے لوگوں کو قابو میں رکھنے کی منظم چالوں پر ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ معیشت خطرناک شرح سے زوال کا شکار ہے اور جرنیل ملک کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہے ہیں جس سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ 

سول سوسائٹی اور صحافیوں کی آوازیں دبا دی گئی ہیں۔ ناجائز حراستوں، جبری گمشدگیوں اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مصدقہ ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ فوجی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد 3,747 لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے اور 24,000 کے قریب گرفتار ہیں۔ 

امداد پر قدغن

وولکر تُرک کی پیش کردہ رپورٹ میں شہریوں کو تحفظِ زندگی کے لیے مددگار امداد کی فراہمی سے دانستہ انکار کا بھی تذکرہ ہے اور انہوں ںے فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امداد مہیا کرنے کی راہ میں بہت سی قانونی، مالیاتی اور حاکمانہ رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ 

انہوں ںے کہا کہ ملک کی ایک تہائی آبادی کو مدد کی ضرورت ہے اور ان حالات میں امداد کی ترسیل پر عائد کی جانے والی قدغن بنیادی انسانی حقوق سے دانستہ، مخصوص اور سوچے سمجھے انکار کے مترادف ہے۔ 

انہوں نے نامعقول تشدد کا فوری خاتمہ کرنے اور ریاستی قونصلر آنگ سان سو کی اور صدر وِن میانت سمیت 19,000 سے زیادہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔ 

میانمار کی صورتحال پر خصوصی اطلاع کار تھامس اینڈریوز نے بھی کونسل سے خطاب کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میانمار کے بہادر لوگوں کی مدد کے لیے زبانی سے زیادہ عملی اقدامات کریں اور ملک کے فوجی حکمرانوں کو ہتھیار، مالی وسائل اور قانونی جواز مہیا نہ کریں کیونکہ یہی وہ تین چیزیں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مظالم اور جبر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔