انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار: انسانی امداد میں رکاوٹیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی

میانمار کے ایک گاؤں میں خاتون اقوام متحدہ کی طرف سے ملنے والی کھاد کی بوری لے کر جا رہی ہے۔
© FAO/Hkun Lat
میانمار کے ایک گاؤں میں خاتون اقوام متحدہ کی طرف سے ملنے والی کھاد کی بوری لے کر جا رہی ہے۔

میانمار: انسانی امداد میں رکاوٹیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوج شہریوں کو ہلاک کر رہی ہے، خوراک اور گھروں کو تباہ کرنے میں لگی ہے اور انتہائی بدحال لوگوں کو تحفظ زندگی کے لئے درکار امداد کی وصولی سے روک رہی ہے۔

میانمار کے لئے 'او ایچ سی ایچ آر' کی ٹیم کے سربراہ جیمز روڈ ہیور نے واضح کیا ہے کہ فروری 2021 میں بغاوت کے بعد ملک کے فوجی حکمران شہری آبادی کو زیر کرنے، امداد تک رسائی کو روکنے اور سول سوسائٹی کے گرد شکنجہ کسنے کے لئے خوف کا ماحول مسلط کر رہے ہیں۔

Tweet URL

سفاکانہ ہتھکنڈے 

انہوں ںے کہا کہ اس سلسلے میں فوج شہری علاقوں پر بھاری ہتھیاروں کے استعمال اور فضائی حملوں، دیہات کو نذرآتش کرنے اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کو واپسی سے روکنے کے لئے بارودی سرنگوں کے استعمال جیسے ہتھکنڈوں سے کام لے رہی ہے۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے تواتر سے خوراک کے گوداموں، فصلوں اور بیج کے ذخیروں کو جلایا، طبی مراکز کو تباہ کیا اور طبی کارکنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ 

روڈہیور کا کہنا ہے کہ مئی میں خوفناک سمندری طوفان موچا کے بعد فوج نے امداد تک لوگوں کی رسائی روکنے کے لئے مزید پابندیاں نافذ کی ہیں۔ 

17.6 ملین لوگوں یا میانمار کی مجموعی آبادی کے ایک تہائی کو امداد کی ضرورت ہے۔ 

'او ایچ سی ایچ آر' کی ترجمان روینہ شمداسانی نے میانمار میں انسانی حقوق کے حوالے سے تازہ ترین جامع صورتحال پر جنیوا میں بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ انسانی امداد تک رسائی کو دانستہ روکنا یا اس کی فراہمی سے انکار کرنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالیوں کے مترادف ہو سکتا ہے۔ 

امدادی کارکنوں سے دشمنی 

انہوں نے کہا کہ امداد فراہم کرنے والوں یا لوگوں کو مدد دینے والوں کی تحفظ سے متعلق ضرورت کو تسلیم کرنے اور بحران کے وقت شہری آبادی تک رسائی اور انہیں مدد کی فراہمی میں سہولت دینے کے بجائے ان کے ساتھ فوج کا طرز عمل ایسا رہا ہے گویا وہ اس کے اقتدار کے مخالف ہوں۔

انہوں نے اس رپورٹ میں ہزاروں شہریوں کو ہلاک و زخمی کرنے اور لوگوں کی بقا کے لئے درکار اشیا اور خوراک کی فراہمی، پناہ اور صحت کی سہولیات سمیت بنیادی ضروریات کے ڈھانچے کو تباہ کرنے سے متعلق فوج کی "چار گھاؤ" کی حکمت عملی کا حوالہ دیا۔

اندازے کے مطابق 1.5 ملین لوگ اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں اور تقریباً 60,000 شہری تنصیبات نذر آتش یا تباہ کر دی گئی ہیں۔ 

مصدقہ ذرائع کے مطابق سویلین حکومت کا تختہ الٹے جانے اور اپریل 2023 کے درمیانی عرصہ میں کم از کم 3,452 افراد فوج اور اس سے منسلک عسکری گروہوں کے ہاتھوں ہلاک اور 12,807 گرفتار ہو چکے ہیں۔

 غیرمعمولی بدترین حالات 

شمداسانی نے مزید کہا کہ خاص طور پر یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد امدادی کارکنوں کے لئے صورتحال غیرمعمولی حد تک بدترین صورت اختیار کر چکی ہے۔ امداد دہندگان کو تواتر سے گرفتاریوں، ہراسانی، دیگر طرح کی بدسلوکی حتیٰ کی موت کے خطرات کا سامنا ہے۔ 

انہوں نے خبردار کیا کہ مسلح تنازعات کے تناظر میں انسانی امداد کو دانستہ طور پر روکنا یا اس کی فراہمی سے انکار لوگوں کو جان بوجھ کر ہلاک کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے یا ان سے دیگر توہین آمیز سلوک، انہیں بھوکا مارنے اور اجتماعی سزا دینے جیسے جنگی جرائم کی ذیل میں آ سکتا ہے۔ 

امداد کی فراہمی سے دانستہ انکار شہری آبادی کے خلاف وسیع پیمانے پر یا باقاعدہ حملے کے تناظر میں قتل، جان لیوا استحصال، تشدد اور دیگر غیرانسانی افعال یا مظالم جیسے انسانیت مخالف جرائم کے برابر ہو سکتا ہے۔