انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: طالبان ’صنفی عصبیت‘ کے ممکنہ قصوروار، انسانی حقوق ماہرین

قندھار کے ایک گاؤں میں موبائل ہیلتھ یونٹ کی نرسیں خواتین کو گھر گھر جا کر طبی خدمات مہیا کرتی ہیں۔
© UNOCHA/Charlotte Cans
قندھار کے ایک گاؤں میں موبائل ہیلتھ یونٹ کی نرسیں خواتین کو گھر گھر جا کر طبی خدمات مہیا کرتی ہیں۔

افغانستان: طالبان ’صنفی عصبیت‘ کے ممکنہ قصوروار، انسانی حقوق ماہرین

انسانی حقوق

سوموار کو انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار موضوع بحث رہی جہاں انسانی حقوق کے لئے اقوام متحدہ کے متعین کردہ غیر جانبدار ماہرین نے منظم "صنفی عصبیت" اور "صنفی بنیاد پر مظالم" کے بارے میں خبردار کیا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کونسل کے موسم گرما کے اجلاس میں افتتاحی روز انہی خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں ںے انسانی حقوق کے بنیادی ترین اصولوں کا خاتمہ کر دیا ہے جن کا خاص طور پر تعلق خواتین اور لڑکیوں سے ہے۔

Tweet URL

افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار اور خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق ورکنگ گروپ کی جانب سے کونسل کو پیش کردہ مشترکہ رپورٹ میں حقوق کے ماہرین رچرڈ بینیٹ اور ڈورتھی ایسٹراڈا۔ٹینک نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی حالت زار دنیا میں بدترین ہے۔ 

ان کی پیش کردہ رپورٹ میں افغانستان کے حکمرانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں اور ان کی بحالی عمل میں لائیں۔ اس میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی طرف بھی بھرپور توجہ دیں۔ 

نظریاتی تعصب

رچرڈ بینیٹ نے کہا کہ انہوں نے کونسل کی توجہ اپنی اس گہری تشویش کی جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کی اپنے بنیادی حقوق سے یہ شدید محرومیاں اور حکمرانوں کی جانب سے اپنے تحدیدی اقدامات کا کڑے انداز میں نفاذ انسانیت کے خلاف جرم یا صںفی بنیاد پر مظالم کی ذیل میں آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، باقاعدہ اور منظم انداز میں امتیازی سلوک طالبان کے نظریے اور حکمرانی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے جس سے ان خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ وہ صںفی بنیاد پر عصبیت کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ 

ان خدشات کو دہراتے ہوئے اقوام متحدہ کی نائب ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نادہ ال نشیف نے کہا کہ طالبان حکمرانوں کی جانب سے متواتر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہیں تاہم پچھلے 22 ماہ میں خواتین اور لڑکیوں پر زندگی کے ہر شعبے میں پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ انہیں ہر انداز میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 

رچرڈ بینیٹ نے خصوصی اطلاع کار کی حیثیت سے اپنے کام کی تکمیل کے لئے افغانستان میں کابل اور مزار شریف کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ یقیناً خواتین اور لڑکیوں کے حالات زندگی پہلے سے زیادہ بدتر ہو گئے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے بھی صورتحال بہتر نہیں ہوئی جو پسماندہ ہیں، جن کا تعلق سابق اسلامی جمہوریہ سے ہے یا جو لوگ طالبان کے نظریے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں یا محض اس کے مخالف ہیں۔ 

زندہ درگور ہونے کی کیفیت

افغان این جی او 'رواداری' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہرزاد اکبر نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تکلیف دہ ذہنی کیفیت کے بارے میں کونسل کو بتایا کہ خواتین کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں زندہ درگور کر دیا گیا ہے، اگرچہ انہیں سانس لینے کی آزادی ہے لیکن وہ پابندیوں اور سزاؤں کا سامنا کئے بغیر کچھ زیادہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی زندگیاں گویا تھم گئی ہیں جبکہ ان کے اردگرد موجود مَردوں کی زندگیاں آگے بڑھ رہی ہیں جن میں ان کے مرد بچے، ان کے بھائی اور ان کے خاوند شامل ہیں۔ 

شہرزاد اکبر نے طالبان حکومت اور دیگر ہمسایہ مسلمان ممالک کے مابین خلیج کے بارے میں بھی بتایا جہاں خواتین کو تعلیم کے حصول، اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے، خلائی سفر کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کی آزادی ہے۔ 

تاہم افغانستان میں ایسا کچھ نہیں ہے جہاں طالبان نے ملک کو افغان خواتین کے عزائم، خوابوں اور صلاحیتوں کی اجتماعی قبر میں تبدیل کر دیا ہے۔