انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار: طوفان موچا کی تباہی سے درجنوں ہلاکتوں کا خدشہ

راخائن کے علاقے سٹوے میں موچا طوفان کے بعد تباہی کا منظر۔
OCHA/Pierre Lorioux
راخائن کے علاقے سٹوے میں موچا طوفان کے بعد تباہی کا منظر۔

میانمار: طوفان موچا کی تباہی سے درجنوں ہلاکتوں کا خدشہ

انسانی امداد

امدادی اداروں نے سمندری طوفان موچا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ''خوفناک صورتحال'' کے بعد میانمار کے انتہائی بدحال لوگوں کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس طوفان میں 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ساحلی ہوائیں خلیج بنگال سے ٹکرائیں اور موچا نے میانمار کی ریاست راخائن کے دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

Tweet URL

اس آفت کے بعد لوگ امداد کا انتظار کرتے ہوئے اپنے تباہ شدہ گھروں کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔

امدادی امور سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق موچا نے گھروں کی چھتیں اڑا دیں، مچھلیاں پکڑنے کی کشتیوں کو توڑ ڈالا، درختوں اور بجلی و مواصلات کے کھمبوں کو اکھاڑ دیا اور لوگوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔

لاکھوں لوگوں کو مشکلات کا سامنا

میانمار کے لئے اقوام متحدہ کے علاقائی اور امدادی رابطہ کار راماناتھن بالاکرشنن کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر 5.4 ملین لوگ اس طوفان سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 3.1 ملین طوفان کے اثرات کے سامنے انتہائی غیرمحفوظ ہیں جن کے پاس معیاری پناہ نہیں ہے، جو غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت ناکافی ہے۔

'او سی ایچ اے' کے عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ موسلا دھار بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے بھی مون سون کے موسم سے پہلے پہاڑی تودے گرنے کے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔

خدشات اس لئے زیادہ ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں ایسے لاکھوں لوگ رہتے ہیں جو میانمار میں طویل عرصہ سے جاری مسلح تنازعے کے باعث بے گھر ہو گئے ہیں جس میں فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد مزید شدت آئی ہے۔ ان میں ریاست راخائن سے تعلق رکھنے والے مسلمان روہنگیا لوگوں کی اکثریت ہے۔

بیماریاں پھیلنے کا خطرہ

انخلا مراکز میں پناہ لینے والے "کئی ہزار" لوگوں کو اب بڑے پیمانے پر ملبے کی صفائی اور تعمیر نو کی کوششیں کرنا ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے سنگین خطرے سے نمٹںے کے لئے امدادی اشیا، پناہ، پینے کے پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے سامان کی فوری ضرورت ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے لئے ڈبلیو ایچ او کے علاقائی دفتر میں علاقائی ہنگامی امور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈون سلواڈور نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ لوگوں کا علاج کرنے کے لئے طبی سازوسامان اور پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کی گولیاں پہلے ہی جمع کی جا چکی ہیں۔

امدادی وسائل میں فوری اضافے کی ضرورت

'او سی ایچ اے' نے صورتحال کی ہنگامی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے بلاتاخیر بین الاقوامی مدد کے لیے اپیل کی ہے۔ بالاکرشنن کا کہنا ہے کہ ''ہمیں بڑے پیمانے پر ضروریات سے نمٹنے کے لئے بھاری مالی وسائل درکار ہیں۔

میانمار میں انسانی امداد کے منصوبے کے تحت درکار وسائل کا 10 فیصد سے بھی کم جمع ہو پایا ہے اور ہم موچا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اضافی ضروریات سے نمٹ نہیں سکیں گے۔''

'یو این ایچ سی آر' نے بنگلہ دیش میں اسی اپیل کو دہرایا ہے جہاں 2023 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی امداد کے لئے درکار مالی وسائل کا صرف 16 فیصد ہی مہیا ہو سکا ہے۔

بنگلہ دیشی کیمپوں میں شدید نقصان

'یو این ایچ سی آر' کی ترجمان اولگا ساراڈو نے کہا ہے کہ ان حالات میں رواں سال کے آغاز میں بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو دی جانے والی غذائی امداد میں 17 فیصد کٹوتی کرنا پڑی۔ اگرچہ سمندری طوفان کے اثرات بنگلہ دیش میں کہیں زیادہ بدترین ہو سکتے ہیں تاہم وہاں پناہ گزینوں کے کیمپوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

شمالی بحر ہند کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان ایک باقاعدہ اور مہلک خطرہ ہیں۔ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے ان کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔