انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کووڈ اور غلط اطلاعات کے دوران لاکھوں بچے ضروری ویکسین سے محروم

کووڈ وباء کے دوران انڈونیشیا کے علاقے مشرق جاوا میں پچے کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔
© UNICEF/Ulet Ifansasti
کووڈ وباء کے دوران انڈونیشیا کے علاقے مشرق جاوا میں پچے کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

کووڈ اور غلط اطلاعات کے دوران لاکھوں بچے ضروری ویکسین سے محروم

صحت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ 2019 اور 2021 کے درمیان کووڈ۔19 وبا اور مسلح تنازعات کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 67 ملین بچے ایک یا دو ضروری ویکسین سے محروم رہے لیکن ویکسین پر اعتماد بھی کم ہو رہا ہے۔

دنیا بھر میں بچوں کی صورتحال پر 2023 کی رپورٹ میں یونیسف کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران 112 ممالک میں ویکسین لینے والے بچوں کی تعداد میں کمی آئی۔

Tweet URL

یہ گزشتہ 30 برس کے عرصہ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے عمل میں سب سے بڑا متواتر انحطاط تھا۔ ادارے کے مطابق ویکسین کے بارے میں گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ میں اضافہ بھی اس کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائن رسل کا کہنا ہے کہ اگرچہ وبا کے عروج پر سائنس دانوں نے زندگی کو تحفظ دینے کے لیے تیزرفتار سے ویکسین بنائیں ''لیکن اس تاریخی کامیابی کے باجود ہر طرح کی ویکسین کے بارے میں خوف اور غلط اطلاعات وائرس کی طرح پھیلتی رہیں۔''

انتباہی علامت

یونیسف کا کہنا ہے کہ وبا نے ''تقریباً ہر جگہ'' بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے عمل کو متاثر کیا کیونکہ اس دوران نظام ہائے صحت پر شدید دباؤ تھا اور لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ تاہم نئی معلومات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں پر اعتماد میں 44 فیصد تک کمی آئی ہے۔

کیتھرائن رسل کا کہنا تھا کہ ''یہ معلومات پریشان کن انتباہی علامات ہیں۔ ہم معمول کے حفاظتی ٹیکوں پر اعتماد کو کووڈ وبا کا ایک اور شکار بننے نہیں دے سکتے۔ بصورت دیگر اموات کی اگلی لہر میں خسرہ، خناق اور دیگر قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہونے والے بچے شامل ہوں گے۔

ویکسین سے ہچکچاہٹ میں اضافہ

یونیسف نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کووڈ۔19 کے دوران 55 مخصوص ممالک میں سے 52 میں بچوں کو معمول کی ویکسین لگانے کی اہمیت کے بارے میں عوامی تاثر میں کمی دیکھی گئی۔

چین، انڈیا اور میکسیکو واحد ممالک تھے جہاں حفاظتی ٹیکوں کی افادیت کے بارے میں تاثر برقرار رہا یا مزید بہتر ہوا۔ وبا کے آغاز کے بعد بیشتر ممالک میں 35 سال سے کم عمر کے لوگ اور خواتین میں ویکسین کی افادیت کے بارے میں بد اعتمادی میں اضافہ ہوا۔

طویل مدتی رحجان؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''ویکسین پر اعتماد غیرمستحکم اور وقت کے ساتھ مخصوص'' ہے اور اس تعین کے لیے مزید معلومات جمع کرنا ہوں گی اور تجزیہ کرنا ہو گا کہ آیا ویکسین پر اعتماد میں آنے والی یہ کمی برقرار رہے گی یا نہیں؟

یونیسف نے کہا ہے کہ مجموعی طور پر حفاظتی ٹیکوں پر اعتماد بدستور مستحکم ہے اور جن 55 ممالک میں یہ جائزہ لیا گیا تھا ان میں سے نصف میں لوگوں کی بڑی تعداد (80 فیصد سے زیادہ) بدستور ویکسین کو بچوں کے لیے ''اہم'' سمجھتی ہے۔

ہیلتھ ورکر گلی گلی جا کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر بچے کو ویکسین لگ گئی ہے۔
© UNICEF/UN0679318/Hayyan
ہیلتھ ورکر گلی گلی جا کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر بچے کو ویکسین لگ گئی ہے۔

گمراہ کن اطلاعات

تاہم رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ''بہت سے عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حفاظتی ٹیکے لگوانے میں ہچکچاہٹ کا رحجان ممکنہ طور پر بڑھ رہا ہے۔''

رپورٹ کے مصںفین نے ان عوامل میں گمراہ کن معلومات تک رسائی میں اضافے، مہارتوں پر اعتماد میں کمی اور سیاسی تقسیم کا حوالہ بھی دیا ہے۔

'بچوں کی بقا کا بحران'

یونیسف نے کہا ہے کہ وبا سے کچھ عرصہ قبل یا اس کے دوران پیدا ہونے والے بچے اب اس عمر سے آگے بڑھ رہے ہیں جب عام حالات میں انہیں حفاظتی ٹیکے لگائے جانا تھے۔ اس طرح ان بچوں کو ایسی مہلک بیماریوں سے خطرات لاحق ہیں جن پر ویکسین کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ یونیسف نے اسے 'بچوں کی بقا کا بحران' قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں دنیا بھر میں خسرے سے متاثرہ بچوں کی تعداد 2021 کے مقابلے میں دو گنا بڑھ گئی تھی اور پولیو کے باعث معذور ہو جانے ولے بچوں کی تعداد میں سالانہ بنیادوں پر 16 فیصد اضاف ہوا۔ 2019 سے 2021 کے درمیان تین سالہ عرصہ میں پولیو نے اس سے پہلے گزرے تین سال کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ بچوں کو معذور کیا۔

بڑھتی ہوئی عدم مساوات

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے کہا ہے کہ وبا نے حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے پائی جانے والی عدم مساوات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ''خاص طور پر پسماندہ طبقات میں بہت سے بچوں کے لیے ویکسین تاحال دستیاب، قابل رسائی یا قابل استطاعت نہیں ہے۔''

2019 اور 2021 کے درمیان معمول کے حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہ جانے والے 67 ملین بچوں میں سے تقریباً نصف کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ 2021 کے اختتام تک انڈیا اور نائجیریا میں ایسے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جنہوں نے معمول کا کوئی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگوایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ دونوں ایسے ممالک ہیں جہاں اس عرصہ میں سب سے زیادہ تعداد میں بچے پیدا ہوئے۔

مجموعی طور پر، کم اور متوسط آمدنی والی ممالک کے شہری علاقوں میں ہر 10 میں سے ایک اور دیہات میں ہر چھ میں سے ایک بچے نے معمول کا کوئی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگوایا تھا۔

غربت، اختیار کی کمی

یونیسف کا کہنا ہے کہ ویکسین سے محروم بچوں کا تعلق دیہی علاقوں یا شہری بستیوں کے''غریب ترین اور انتہائی دور دراز'' حصوں سے ہے جو وقتاً فوقتاً مسلح تنازعات کی زد میں رہتے ہیں۔

رپورٹ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے خاندان کے فیصلے میں خواتین کے بااختیار کردار کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا  ہے کہ معمول کے حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہنے والے بچوں کی مائیں عام طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں اور خاندان کے فیصلوں میں ان کی رائے نہیں لی جاتی۔''

طبی کارکنوں کی ناکافی اجرت

یونیسف کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق کے نتائج سے بنیادی طبی سہولیات کو بہتر بنا کر اور حفاظتی ٹیکے لگوانے کے عمل میں نچلی سطح پر کام کرنے والے طبی عملے پر سرمایہ کاری کر کے ویکسین لگانے کی کوششوں کو یقینی طور پر پائیدار بنانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

 

ایسا بیشتر عملہ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے اور رپورٹ کے مطابق انہیں کم اجرت، غیررسمی ملازمت، رسمی تربیت اور ملازمت میں ترقی کے مواقع کے فقدان اور ذاتی سلامتی کو لاحق خطرات جیسے بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

حکومتوں سے عملی اقدامات کا مطالبہ

یونیسف ممالک سے کہہ رہا ہے کہ وہ فوری طور پر وسائل مہیا کریں تاکہ ان بچوں پر توجہ دی جا سکے جو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے محروم رہ گئے ہیں، ویکسین پر کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جائے اور خواتین پر مشتمل طبی عملے اور مقامی سطح پر ویکسین بنانے والی صنعتوں کی مدد کر کے نظام ہائے صحت کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔

کیتھرائن رسل کے مطابق ''معمول کے حفاظتی ٹیکے اور مضبوط طبی نظام آئندہ وباؤں، غیرضرورت اموات اور تکالیف کی روک تھام کے لیے ہمارا بہترین ہتھیار ہیں۔

کووڈ۔19کے خلاف ویکسین لگانے کے اقدامات کے لیے مختص کئے گئے بہت سے وسائل تاحال موجود ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ان وسائل کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی خدمات کو بہتر بنانے پر صرف کیا جائے اور ہر بچے کے لیے صحت کے نظام کو پائیدار بنانے پر سرمایہ کاری کی جائے۔