انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ترقیاتی فورم کی مالیات بارے جاننے کی پانچ باتیں

پاکستان میں کاشتکار گندم کی فصل اٹھا رہے ہیں۔
© ADB/Rahim Mirza
پاکستان میں کاشتکار گندم کی فصل اٹھا رہے ہیں۔

ترقیاتی فورم کی مالیات بارے جاننے کی پانچ باتیں

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے اعلٰی حکام اور حکومتوں کے نمائندے عالمی مالیاتی نظام کو تبدیل کرنے اور پائیدار ترقی کے لیے 2030 کے متفقہ عالمی ایجنڈے کے حصول کی راہ پر واپسی کے لیے ایک ایسے موقع پر اکٹھے ہوئے ہیں جب عالمگیر معیشت متواتر بحرانوں کی زد میں ہے۔

دنیا کو اس قدر مسلح تنازعات، انسانی تباہی، شدید موسمی واقعات اور معاشی اتھل پتھل ہو رہی ہے کہ موجودہ صورتحال کو بیان کرنے کے لیے ''بحرانِ کثیر'' (پولی کرائسس) کا نیا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔

یہ لفظ 2022 میں سامنے آیا تھا۔ اُس سال کا آغاز ان امیدوں سے ہوا تھا کہ عالمی معیشت کووڈ۔19 وبا سے پیدا ہونے والے بہت بڑے خلل کے بعد بحال ہو جائے گی لیکن جب یہ وقت آیا تو یوکرین کے خلاف روس کے حملے کا بحران دنیا پر حاوی ہو گیا۔

ان تمام مسابقتی بحرانوں کی موجودگی میں بہت سے ممالک کے پاس بحالی کے لیے سرمایہ کاری، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور پائیدار ترقی کے لیے وسائل نہیں تھے۔

اسی مشکل ماحول میں 2023 کا 'مالیات برائے ترقی فورم' (ایف ڈی ایف) 17 تا 20 اپریل اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد ایسی پالیسیوں کے لیے زور دینا ہے جن سے ممالک کو مفلوج کر دینے والے قرضوں سے لے کر عدم ترقی اور غذائی عدم تحفظ تک بہت سے عالمگیر ترقیاتی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے۔

اس سال منعقد ہونے والے ایف ڈی ایف فورم کے بارے میں پانچ باتوں سے آگاہی ضروری ہے۔

موزمبیق میں مقامی لوگ سیلابوں سے بچاؤ کے لیے ساحلی جنگلات کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
© FAO/Mani Tese/Leonel Raimo
موزمبیق میں مقامی لوگ سیلابوں سے بچاؤ کے لیے ساحلی جنگلات کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

1۔ اس سال فورم کیوں اہم ہے؟

2023 پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم وقت ہو گا۔ اس سال 2030 تک پائیدار ترقی کے 17 اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے مقصد کی راہ پر نصف وقت مکمل ہو رہا ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے اس مدت پر 2015 میں اتفاق ہوا تھا۔

اقوام متحدہ ستمبر میں ایس ڈی جی کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس میں ان اہداف کے حصول کی رفتار تیز کرنے کی منصوبہ بندی لائے گا۔ تاہم ٹھوس مالی مدد کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔

فروری میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے تسلیم کیا تھا کہ ایس ڈی جی کے حصول کے لیے درست سمت میں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ان اہداف کے حصول کے لیے کام کی رفتار تیز کرنے کا مںصوبہ پیش کیا تھا جس میں امیر ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ایس ڈی جی کے حوالے سے مالی وسائل کی مد میں ہر سال مزید 500 بلین ڈالر فراہم کریں۔

انہوں ںے کہا کہ ''ایس ڈی جی کے لیے سرمایہ کاری کرنا ایک معقول اور کارآمد اقدام ہے۔ یہ دنیا کے لیے ہر طرح سے فائدہ مند ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی کے سماجی اور اقتصادی فوائد کی شرح بہت زیادہ ہے۔''

اس منصوبے میں عالمی مالیاتی نظام کو تبدیل کرنے کی بات بھی کی گئی ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو مفلوج کر دینے والے قرضے کے بوجھ میں کمی لائی جا سکے اور ان کے لیے مالی وسائل تک رسائی آسان بنائی جائے۔ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینا بھی رواں سال ایف ڈی ایف فورم کے ایجنڈے میں شامل ہو گا۔

ایتھوپیا میں خواتین کافی کے بیج علیحدہ کر رہی ہیں۔
© FAO/Eduardo Soteras
ایتھوپیا میں خواتین کافی کے بیج علیحدہ کر رہی ہیں۔

2۔ بڑے مسائل کیا ہیں؟

سرمایہ کاری برائے پائیدار ترقی کے حوالے سے 2023 کی رپورٹ کے مطابق شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد وبا سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں دو گنا بڑھ چکی ہے جو 2019 میں 135 ملین تھی اور 2023 میں اس کے 345 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث 2022 میں خوراک کی قیمتیں 2019 کے مقابلے میں 50 فیصد بڑھ گئی ہیں۔

کم ترین ترقی یافتہ ممالک اور بہت سے افریقی ملکوں میں صنعت کاری کے شعبے میں حسب توقع ترقی نہیں ہو رہی۔ 2030 کے ایجنڈے میں اس دہائی کے آخر تک افریقہ کے ممالک میں صںعتی شعبے میں اشیا کی تیاری اور فروخت کی ''ایڈیڈ ویلیو'' کو دگنا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے ممالک کو خام مال فروخت کرنے کے بجائے مزید بڑی تعداد میں اشیا کی تیاری اور فروخت ہے۔

2000 میں یہ قدر ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد تھی جو 2021 میں نو فیصد پر آ گئی۔

قرضوں کی واپسی بھی غریب ترین ممالک کو شدید معاشی نقصان پہنچا رہی ہے۔ 2022 میں 25 ترقی پذیر ممالک کو اپنی مجموعی ملکی آمدنی کے پانچویں حصے سے زیادہ رقم اس مد میں مختص کرنا پڑی تھی۔

صنفی عدم مساوات بھی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 115 ممالک میں خواتین مردوں کی طرح کاروبار نہیں کر سکتیں۔

تنزانیہ کی ایک بندرگاہ پر کارکن باربرداری کرتے ہوئے۔
© ILO/Marcel Crozet
تنزانیہ کی ایک بندرگاہ پر کارکن باربرداری کرتے ہوئے۔

3۔ فورم میں مسائل کے کون سے حل زیربحث آئیں گے؟

فورم کے ایجنڈے کی بنیاد بڑی حد تک سرمایہ کاری برائے پائیدار ترقی کے موضوع پر 5 اپریل کو جاری کردہ رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر ہو گی جس میں مضبوط تر محصولاتی نظام، پائیدار ترقی کے لیے نجی و سرکاری شعبے سے مزید سرمایہ کاری اور مزید وسائل پیدا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کے لیے کہا گیا ہے۔

رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ 'نیا ماحول دوست صنعتی دور' لانے کے لیے بجلی کی فراہمی، صنعت، کاشت کاری، نقل و حمل اور عمارتوں جیسے شعبوں میں تبدیلیوں کی رفتار تیز کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔

صنعت کاری عام طور پر آلودگی اور کچرا پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے لیکن تاریخی طور پر اس شعبے کو ترقی میں بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس رپورٹ میں تجویز کردہ ''ماحول دوست صںعت کاری'' میں کم کاربن خارج کرنے والی صںعتوں کو مدد دینا بشمول انہیں ہوائی اور شمسی توانائی جیسے قابل تجدید ذرائع کی فراہمی، ڈیجیٹل معیشت اور ایسی پالیسیوں کی تیاری شامل ہے جن سے صنعتوں کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم رکھتے ہوئے پائیدار سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے لیے مدد ملے۔

ایسی علامات سامنے آئی ہیں کہ اس پیغام کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ 2022 میں قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے اخراجات 1.1 ٹریلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچے جنہوں نے پہلی مرتبہ معدنی ایندھن کے نظام پر ہونے والی سرمایہ کاری کو پیچھے چھوڑ دیا اور 2021 میں ماحول دوست توانائی 7.2 ٹریلین ڈالر مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے پانچواں سب سے بڑا صنعتی شعبہ بن گئی۔

بنگلہ دیش کے علاقے کاکس بازار میں ایک لڑکا پینے کے لیے صاف پانی لا رہا ہے۔
© UNICEF/Patrick Brown
بنگلہ دیش کے علاقے کاکس بازار میں ایک لڑکا پینے کے لیے صاف پانی لا رہا ہے۔

4۔ بے عملی کے نقصانات کیا ہیں؟

امیر اور غریب کے مابین خلیج گہری ہو رہی ہے اور عالمی معیشت کی پوری طرح جانچ پڑتال کے بغیر 2030 میں متوقع طور پر 574 ملین افراد یا دنیا کی آبادی کا قریباً سات فیصد حصہ شدید غربت میں زندگی بسر کر رہا ہو گا۔ ان حالات آئندہ چار سال کے دوران میں ایل ڈی سی اور کم آمدنی والے دیگر ممالک کو درکار بیرونی سرمایے کی ضرورت متوقع طور پر 172 بلین ڈالر سے بڑھ 220 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

اس حوالے سے پیش کردہ سفارشات میں ایک انتباہ بھی شامل ہے کہ اگر مجوزہ اصلاحات مرحلہ وار اور نامکمل ہوں گی یا ایس ڈی جی کا احاطہ کرنے میں ناکام رہیں تو پائیدار ترقی نہیں ہو پائے گی اور 2030 کا ایجنڈا اور موسمیاتی اہداف ناقابل رسائی ہو جائیں گے۔

کینیڈا میں ایک ٹیکنیشن ہوا سے چلنی والی ٹربائین کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
© Climate Visuals Countdown/Joan Sullivan
کینیڈا میں ایک ٹیکنیشن ہوا سے چلنی والی ٹربائین کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

5۔ آئندہ کیا ہو گا؟

کسی کو شبہ نہیں کہ آئندہ ہدف بہت بڑا ہے اور ماہرین متفق ہیں کہ جہاں انسانی بحران موجود ہے وہاں طویل مدتی پائیدار ترقی ناقص ہو گی۔

اقوام متحدہ کے ماہرین معاشیات چاہتے ہیں کہ ایف ڈی ایف کا طریقہ کار عالمی اداروں میں ایسی موثر اصلاحات لائے جن سے ترقی پذیر ممالک کی فوری ضروریات بہتر طور سے پوری ہو سکیں۔