انسانی کہانیاں عالمی تناظر
تنزانیہ میں خواتین موسم دوست زراعت کے حصے کے طور پر سمندری بوٹیوں کی فصل اٹھا رہی ہیں۔

دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں جاننے کی پانچ باتیں

UN Women/Phil Kabuje
تنزانیہ میں خواتین موسم دوست زراعت کے حصے کے طور پر سمندری بوٹیوں کی فصل اٹھا رہی ہیں۔

دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں جاننے کی پانچ باتیں

معاشی ترقی

کووڈ۔19 کے زور پکڑنے پر کاروبارِ دنیا بند ہونے کے تین سال بعد اقوام متحدہ اور دیگر شراکت دار قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایسے ممالک کی مدد کے لیے تاریخی اہمیت کا ایک نیا عہد کریں گے جن کی کمزوریاں وباء میں کھل کر سامنے آئی ہیں۔

کم ترقی یافتہ ممالک یا 'ایل ڈی سی' کے بارے میں کانفرنس ہر 10 سال کے بعد منعقد ہوتی ہے اور اس سال یہ 5 تا 9 مارچ ہو رہی ہے جسے 'ایل ڈی سی 5' کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس 46 نامزد ممالک کی ضروریات کو عالمی ایجنڈے میں دوبارہ سرفہرست لانے اور ان کی مدد کرنے پر مرکوز ہو گی جو پائیدار ترقی کی راہ پر واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

1۔ کم ترقی یافتہ ممالک کون ہیں؟

کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل ایسے ملک ہیں جہاں بہت سے اشاریوں میں سماجی معاشی ترقی کی شرح بہت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایسے تمام ممالک میں مجموعی قومی فی کس آمدنی (جی این آئی) 1,018 امریکی ڈالر سے کم ہے۔ ان کے مقابلے میں امریکہ میں یہ آمدنی 71,000 ڈالر، فرانس میں 44,000 ڈالر، ترکیہ میں 9,900 ڈالر اور جنوبی افریقہ میں 6,530 ڈالر ہے۔

غذائیت، صحت، سکولوں میں داخلے اور خواندگی کے اشاریوں میں بھی ان ممالک کی کارکردگی بہت خراب ہے جبکہ ماحولیاتی اعتبار سے کمزوری کے اشاریوں میں ان کا درجہ بہت بلند ہے جو  تفاوت، زراعت پر انحصار اور قدرتی آفات کے سامنے غیرمحفوظ ہونے جیسے عوامل کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔

اس وقت کم ترقی یافتہ ممالک کی تعداد 46 ہے جن کی بڑی اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہے۔ (تفصیل نیچے دیکھیے) اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل ہر تین سال کے بعد اس فہرست کا ازسرنو جائزہ لتی ہے۔ 1994 اور 2020 کے درمیانی عرصہ میں چھ ممالک اس فہرست سے نکل آئے ہیں۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک کچی بستی جہاں لوگ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
UNDP/Fahad Kaizer
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک کچی بستی جہاں لوگ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

2۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو کون سے مسائل درپیش ہیں؟

اس وقت 46 کم ترقی یافتہ ممالک میں 1.1 ارب لوگ رہتے ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا 14 فیصد اور تاحال غربت میں زندگی گزارنے والی آبادی کا 75 فیصد سے زیادہ ہیں۔

ایل ڈی سی کے شدید غربت کا شکار ہونے اور پسماندگی میں رہنے کا خطرہ دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ وہ خارجی معاشی خطرات، قدرتی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات، چھوت کی بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلی کے سامنے بھی غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔

اس صدی کے دوران عالمی حدت میں تقریباً 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے ایل ڈی سی تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ کاربن کے اخراج میں ان ممالک کا بہت کم کردار ہے لیکن یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہیں۔

ایل ڈی سی کووڈ۔19 سے بری طرح متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ 2020 میں ان میں سے آٹھ کے سوا دیگر ممالک میں شرح نمو منفی رہی اور وہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں وبا کے اثرات تادیر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

قرض تمام ایل ڈی سی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان میں چار ممالک (موزمبیق، ساؤ ٹومے اینڈ پرنسپے، صومالیہ اور سوڈان) قرض واپس کرنے کی استطاعت کھو بیٹھے ہیں اور 16 کو انہی حالات کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

اس طرح ایل ڈی سی کو عالمی برادری کی جانب سے انتہائی توجہ درکار ہے۔

افغانستان میں گردیز کے پاکتیا علاقائی ہسپتال میں ایک پانچ سالہ بچی میں غذائیت کی کمی دور کرنے کے لیے دودھ دیا جا رہا ہے۔
© UNICEF/Sayed Bidel
افغانستان میں گردیز کے پاکتیا علاقائی ہسپتال میں ایک پانچ سالہ بچی میں غذائیت کی کمی دور کرنے کے لیے دودھ دیا جا رہا ہے۔

3۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ایل ڈی سی کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟

اقوام متحدہ نے عالمی معیشت میں ایل ڈی سی کی بڑھتی ہوئی پسماندگی کو ختم کرنے اور انہیں پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوششیں 1960 میں ہی شروع کر دی تھیں۔

اس وقت سے اب تک اقوام متحدہ نے ایل ڈی سی پر خصوصی توجہ دی ہے، انہیں عالمی برادری میں انتہائی غیرمحفوظ ملک تسلیم کیا ہے اور انہیں درج ذیل مخصوص فوائد مہیا کیے ہیں:

ترقیاتی مالیات: خاص طور پر عطیہ دہندگان اور مالیاتی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ مالی امداد اور قرضے

کثیرفریقی تجارتی نظام: جیسا کہ منڈی تک ترجیحی رسائی اور خصوصی برتاؤ۔

تکنیکی امداد: خصوصاً تجارتی معاونت کے لیے۔

پہلی ایل ڈی سی کانفرنس 1981 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوئی تھی۔ 40 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اس کانفرنس کا اجلاس 2022 میں ہونا تھا لیکن کووڈ کے باعث اسے رواں سال تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

کانگو میں اندرون ملک مہاجرت ہر مجبور افراد کے ایک کیمپ میں ایک بچہ ٹڈیوں سے بھرے برتن اٹھائے کھڑا ہے۔
© UNICEF/Olivia Acland
کانگو میں اندرون ملک مہاجرت ہر مجبور افراد کے ایک کیمپ میں ایک بچہ ٹڈیوں سے بھرے برتن اٹھائے کھڑا ہے۔

4۔ دوحہ پروگرام آف ایکشن کیا ہے؟

دوحہ پروگرام آف ایکشن (یا ڈی پی او اے) ایل ڈی سی کے لیے ترقیاتی لائحہ عمل ہے جس پر مارچ 2022 میں اتفاق کیا گیا تھا۔

اس میں درج ذیل چھ بنیادی باتیں شامل ہیں:

  1. غربت کا خاتمہ اور صلاحیتوں میں اضافہ۔
  2. کمزوریوں پر قابو پانے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کی طاقت سے کام لینا۔
  3. خوشحالی کے محرک کے طور پر ساختیاتی تبدیلی میں تعاون۔
  4. ایل ڈی سی کی بین الاقوامی تجارت بڑھانا اور علاقائی انضمام۔
  5. موسمیاتی تبدیلی اورماحولیاتی انحطاط پر قابو پانا، کووڈ۔19 وبا سے بحالی اور آئندہ بحرانوں کے خلاف مضبوطی پیدا کرنا۔
  6. بین الاقوامی یکجہتی پیدا کرنا اور عالمگیر شراکتوں کو تقویت دینا۔

'ڈی پی او اے' پر مکمل عملدرآمد سے ایل ڈی سی کو کووڈ۔19 وباء اور اس کے منفی سماجی و معاشی اثرات سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے سمیت ایس ڈی جی کے حصول کے لیے درست راہ پر آنے میں مدد ملے گی۔

براعظم امریکہ میں ہیٹی واحد ملک ہے جسے کم ترین ترقی یافتہ ملک قرار دیا گیا ہے۔
© UNICEF/Georges Harry Rouzier
براعظم امریکہ میں ہیٹی واحد ملک ہے جسے کم ترین ترقی یافتہ ملک قرار دیا گیا ہے۔

5۔ ہم 'ایل ڈی سی 5' سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟

اقوام متحدہ، سربراہان ریاست و حکومت، ترقیاتی شراکت دار، نجی شعبہ، سول سوسائٹی، پارلیمانی نمائندے اور نوجوان پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں شراکتوں، وعدوں اور اختراعات پر اتفاق کریں گے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس کانفرنس سے خطاب کرنا ہے اور وہ ایل ڈی سی کے ساتھ تعاون کی اہمیت کو پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کے مطابق ''دوحہ پروگرام آف ایکشن ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ عالمگیر بحالی کا انحصار ایل ڈی سی کو درکار مدد کی فراہمی پر ہے۔ انہیں صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے نظام میں دلیرانہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ایجنڈا 2030 پر پوری طرح عملدرآمد اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے تمام ضروری وسائل درکار ہیں۔

ایل ڈی سی کو ان اہداف کی جانب پہلا قدم بڑھاتے وقت مخصوص اہداف حاصل کرنا ہوں گے جو انہیں کم ترین ترقی یافتہ ممالک کے درجے سے نکلنے کے قابل بنائیں گے۔

چھ ممالک اس عمل سے گزر چکے ہیں جن میں بوٹسوانا (1994میں)، کابو ویڈ (2007)، مالدیپ (2011)، سیموا (2014)، استوائی گنی (2017) اور وینوآٹو (2020) شامل ہیں۔

کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست:

مارچ 2023 تک اقوام متحدہ کی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں درج ذیل 46 ملک شامل تھے:

افریقہ (33 ممالک): انگولا، بینن، برکینا فاسو، برونڈی، وسطی جمہوریہ افریقہ، چاڈ، کوموروز، جمہوریہ کانگو، جبوتی، اریٹریا، ایتھوپیا، گیمبیا، گنی، گنی بساؤ، لیسوتھو، لائبیریا، مڈغاسکر، ملاوی، مالی، موریطانیہ، موزمبیق، نائیجر، روانڈا، ساؤ ٹومے اینڈ پرنسپے، سینیگال، سیرالیون، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، تنزانیہ، ٹوگو، یوگنڈا اور زیمبیا۔

ایشیا (9 ممالک): افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، عوامی جمہوریہ لاؤ، میانمار، نیپال، ٹیمور۔لیسٹے اور یمن۔

غرب الہند (ایک ملک): ہیٹی

الکاہل (3 ممالک): کیریباٹی، جزائر سولومن اور ٹوالو